Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yousra Shaykh
  4. Allah Ka Bande Se Rishta

Allah Ka Bande Se Rishta

اللہ کا بندے سے رشتہ

اللہ کا اپنے بندے سے ایک عجیب رشتہ ہے۔ ہم نے نہیں دیکھا اپنے رب کو لیکن اس کی واحدانیت کی گواہی دل دیتا ہے۔ جسم کا ہر حصہ اس کو یکتا تسلیم کرتا ہے۔ کائنات میں موجود ہر چیز اس نے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ یہ اتنا پیارا رب ہے کہ اس کی محبت کو انسان اپنے اندر محسوس کر سکتا ہے۔ جب انسان بلکل اکیلا ہو جاتا ہے۔

دنیا کے بے رنگ اور کمزور سہارے اس کے کسی مشکل وقت میں ساتھ نہیں دیتے اس وقت پکارنے پر دل سے آواز آتی ہے پریشان نا ہو میں ہوں نا۔ ایک دفعہ ایک غزوہ میں ایک عورت پکڑی گئی۔ اس کا بچہ کہیں کھو گیا تھا۔ ماں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ جو بھی بچہ دیکھتی اس کو بہت پیار کرتی اپنے سینے سے لگا لیتی۔ رسول پاک ﷺ نے دیکھا تو لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے؟" لوگوں نے عرض کی ہرگز نہیں۔

حضور پاک ﷺ نے فرمایا: "اللہ کو اس سے زیادہ محبت ہے اپنے بندوں سے جتنی اس عورت کو اپنے بچے سے ہے"۔

رب اپنے بندے کے لوٹنے کا انتظار کرتا ہے۔ کہ کب میرا بندہ میری طرف لوٹ آہے اور میں اس کی توبہ پر اس کو اپنی رحمت کے سائے میں چھپا لوں۔ اس کے گناہوں سے بھرے سیاہی سے لپٹے کالے دل کو اپنی رحمت کی بارش سے دھو کر صاف ستھرا کر دوں۔ ابھی کہ وہ تو رب ہے بادشاہوں کا بادشاہ اس کو ہماری نہیں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس رب کی رحمت کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ جب اس کا بندہ ایک قدم اس کی طرف بڑھاتا ہے وہ بھاگ کر اپنے بندے کو تھام لیتا ہے۔

حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی محبت الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "بندے کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت وہ ایک صفت ہے جو فرماں بردار مؤمن کے دل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا معنیٰ تعظیم وتکریم بھی ہےیہاں تک کہ بندہ محبوب کی رضا طلب کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس کے دیدار کی طلب میں بے خبر ہوکر اس کی قربت کی آرزو میں بے چین ہوجاتا ہے اور اسے اُس کے بغیر چین وقرار حاصل ہی نہیں ہوتا۔ اس کی عادت اپنے محبوب کے ذکرکے ساتھ ہو جاتی ہے اور وہ بندہ غیر کے ذکر سے دور اور متنفر رہتا ہے۔ وہ تمام طبعی رغبتوں وخواہشوں سے جدا ہوکر اپنی خواہشات سے کنارہ کش ہوجاتا ہے، وہ غلبَۂ محبت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہےاور خُدا کے حکم کے آگے سر جھکادیتا ہے اور اسے کمال اوصاف کے ساتھ پہچاننے لگتا ہے"۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلامات، صفحہ 246)

جب انسان صرف اللہ کو اپنا مان لیتا ہے تو اللہ سب سے پہلے اپنے بندے کے اندر سے "میں" کو نکال باہر پھینکتا ہے اور خود کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے۔ بس پھر اس کی رضا میں راضی ہو جاتا ہے۔ جلوے تو رب پھر انسان کو دیکھاتا ہے۔ جب وہ اپنے بندے کو عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا مطلب سیکھا دیتا ہے اور یہ سفر چنے ہوئے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ جب مشکلیں گھر کی دہلیز دیکھ لیں تو ہمارے تمام رشتے آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے1ہیں اور یہ پتہ ہمیں اچانک لگتا ہے۔ جب سب ختم ہو جا تا ہے۔

جیسے ہم سمندر کے کنارے بیھٹے بڑے مان سے پانی کو اپنی مُٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب مُٹھی کھولتی ہے تو اصل حقیقت منہ پر تماچہ مارتی ہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے، یہ احساس دلاتی ہے کہ تم کچھ نہیں۔ ہر طرف رب ہے بس، اس وقت انسان کی ظاہری آانکھ حقیقت کے نظارے دیکھتی ہے۔ رب کا رشتہ اپنے بندے کے ساتھ گہرا ہوتا ہی مشکل وقت میں ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جس کے ختم ہونے کا ہمیں خوف نہیں ہوتا۔ جو ہمارا ہے اور ہمیشہ ہماری شہ رگ سے زیادہ ہمارے قریب ہے، اور ہمیشہ ہمارا رہنے کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ جس کے ہونے کا احساس ہمیں مضبوط بناتا ہے اور پھر سے جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔

انسان کا توکل اپنے رب پر جتنا مضبوط ہوگا، رب اس کو اسکی سوچ سے بھی زیادہ نوازے گا۔ کیونکہ وہ رحیم ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے والا، بے رنگ زندگیوں کو خوبصورت بنانے والا کریم، غم کو خوشیوں میں بدلنے والا رب ہے۔ ہمارے رب کو محبت ہے ہمارے ندامت کے آنسو سے وہ آنسو جو کسی اپنے یادوست کے سامنے جب گرتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے کہ ڈرامے کر رہا ہے۔

مشکل میں تو بھائی بھائی کا نہیں رہتا۔ لیکن اللہ انسان کی مشکلیں حل کر دیتا ہے۔ اس کی ہر بات کو سنتا ہے۔ آپ گھنٹوں اس کے سامنے بیٹھے اپنی ایک ہی بات کو دس بار بھی دھرائیں گے نا تو یہ کبھی آپ سے اکتائے گا نہیں، نا ہی آپ کو کوئی طعنہ دے گا بلکہ آپ کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور آپ کی تمام الجھنوں کو سلجھا دےگا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر وہ مالک جو ہر چیز پر غالب ہے، ہر مشکل کو حل کر دے، ہر الجھن کو سلجھا دے تو پھر اس سے بات چیت کم ہو جائےاس کے بندے کی۔ اس لئے وہ چاہتا ہے میرا بندہ بار بار مجھ سے مانگے مجھ سے باتیں کرے مجھے اپنے دکھ سنائے۔

ایک سے دوسری بار جب ہم کسی کو اپنے دکھ سنائیں تو وہ ہمیں مشورے دیتا ہے، الٹی سیدھی دلیلیں پیش کرتا ہے، اکتا جاتا ہےیا پھر یہ کہتا ہے کہ آپ کا کوئی گناہ ہے جو آپ کو سکون نہیں لینے دیتا۔ لیکن ہمارا رب تو سب جاننے کے باوجود ہمیں سننا چاہتا ہے۔ وہ تو اپنے ان بندوں کی توبہ کے انتظار میں رہتا ہے جو اس کے نافرمان ہوتے ہیں۔ اسلئیے دل لگائیں تو بس خالق سے کیوں کہ لوگ اس کے لائق نہیں۔۔ اپنے رب کو وقت دیں یقین جانے ہمارے اللہ کو ہمارے وقت کی کوئی ضرورت نہیں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اسلئیے ہمیں ہمارے رب سے ایسی ہدایت مانگنی چاہیے جس کے بعد گمراہی نہ ہو۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan