Mutnaza Canal, Masla Kya Hai
متنازع کینال، مسئلہ کیا ہے

وفاقی اور پنجاب حکومت پاکستان میں زراعت کی ترقی کے نام پر چھ کینال بنانا چاہتے ہیں جن میں گریٹر تھل کینال اور چولستان کینال پنجاب میں بنے گی، رینی کینال اور تھر کینال سندھ میں بنے گی، کچھی کینال بلوچستان کے لئے تعمیر ہوگی جبکہ خیبرپختونخوا کے لئے چشمہ رائٹ بینک کینال کی پنجاب میں تعمیر ہوگی۔
ان متنازع کینالوں میں وفاقی حکومت، چولستان کینال میں پنجاب حکومت کی پارٹنر ہے، گریٹر تھل کینال فیز ٹو پنجاب حکومت بنارہی ہے، بلوچستان کی کچھی کینال وفاقی منصوبہ ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے لئے پنجاب میں تعمیر ہونے والی چشمہ رائٹ بینک کینال ابھی منظوری کے مراحل میں ہے۔
سندھ حکومت ہمیشہ سے ان کینالوں کی تعمیر کی تیکنکی وجوہات کے تحت مخالفت کرتی ہے، سندھ میں تین بیراج ہیں اور ان سے 14 کینالیں نکلتی ہیں، پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ حکومت اپنی ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ زمین کو پانی دینے کے بجائے محض 65 سے 70 لاکھ ایکڑ زمین کو پانی فراہم کر پا رہی ہے جس کی وجہ سے سندھ کی تقریباََ آدھی قابل کاشت زمین ضائع ہو رہی ہے، جب پہلے سے موجود کینالوں میں پانی نہیں ہے تو نئی کینالوں میں پانی کیسے آئے گا۔
پاکستان میں پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے 1999 سے اب تک آفیشل دستاویزات کے مطابق سندھ کو ضرورت سے بہت کم پانی کے اپنے حصے 48.76 ملین ایکٹر فیٹ میں سالانہ 20 فیصد کمی ہوتی ہے، گو پانی میں کمی کے یہ اعداد و شمار بھی درست نہیں ہیں تاہم اگر ان کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ارسا کو یہ بتانا ہوگا کہ نئی کینالوں کی تعمیر سے اسی کے اعداد و شمار کے مطابق پانی کی کمی کو کیسے دور کیا جائے گا، اسی طرح پنجاب خود ہر سال ارسا کو اپنے صوبے میں پانی کی 20 فیصد کمی کی رپورٹ جمع کرواتا ہے، ایسے میں نئی کینالوں کی تعمیر سے پنجاب خود پانی کہاں سے لائے گا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
پنجاب کے مقدمے کے مطابق وہ نئی کینالوں کے لئے سیلاب سے حاصل ہونے والا 76 فیصد پانی لے گا اور اپنے اضافی 10 لاکھ 53 ہزار ایکڑ رقبے کو کاشت کرے گا، یہ ایک دلچسپ معاملہ ہے، گو پاکستان میں سالانہ سیلاب نہیں آتا اور سیلاب کا سائیکل پانچ یا 10 سال بعد آتا ہے تاہم ہم پھر بھی مان لیتے ہیں کہ اب ہر سال سیلاب آئے گا اور پنجاب اس سیلابی پانی کو نئی کینالوں کے لئے استعمال کرے گا، اب اس ناممکن صورت حال کے تحت مسئلہ یہ ہے کہ سیلاب کا سائیکل جولائی کے آخر یا اگست میں شروع ہوتا ہے جبکہ خریف کی فصل کو پانی دینے کا وقت اپریل اور مئی میں ہوتا ہے، پنجاب کو پانی پہلے درکار ہوگا اور ناممکن سالانہ سیلاب بعد میں آئے گا تو پنجاب اس پانی کی ضرورت کو ہرسال کیسے پورا کرے گا؟
پنجاب کا یہ بھی مؤقف ہے کہ وہ 10 لاکھ 53 ہزار ایکڑ رقبے کو کاشت کرنے کے لئے ان کینالوں کے لئے اپنے دریاؤں کا پانی استعمال کرے گا، پنجاب کے مؤقف کے مطابق وہ اس منصوبے تک پانی پہنچانے کے لئے منگلا کمانڈ سے پانی لے گا، جس کا دریائے سندھ سے کوئی تعلق نہیں، پنجاب کے مؤقف کے مطابق چولستان کینال کے لئے پانی دریائے جہلم کی رسول قادرآباد لنک کینال سے دریائے چناب کے قادرآباد بیراج تک آئے گا، پھر یہ پانی راوی دریا میں بلوکی کے مقام تک آئے گا، پھر یہ پانی دریائے ستلج کے بلوکی سلمانکی لنک سے ہوتا ہوا جائے گا اور یہاں ایسٹرن صادقیا نہر سے پانی پراجیکٹ تک پہنچانے کے لئے نیو فتح کینال، نیو مراد کینال، نیو ہاکڑا کینال اور ہرن کینال تعمیر ہوں گی، یہ چار نہریں فلڈ کا پانی لے کر چولستان اور اس کی شاخ میروٹ کینال میں لے جائیں گی۔
اس مؤقف کو سمجھنے کے لئے آپ کو دریاؤں کا نظام جاننا ہوگا، پاکستان میں چھ دریا ستلج، راوی، چناب، جہلم، بیاس اور سندھ ہیں، جن میں سے تین دریا ستلج، راوی اور بیاس ہم ہندوستان کو بیچ چکے ہیں، ان دریاؤں کو بیچنے کے بعد پنجاب نے دریائے سندھ کا پانی استعمال کرنے کے لئے چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند لنک کینال بنائی، جس کے بعد دریائے سندھ صرف سندھ کے پانی کی ضرورت پوری نہیں کرتا بلکہ یہ دریا پورے پاکستان کے پانی کے نظام کے ساتھ منسلک ہے، یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ستلج، راوی، چناب، جہلم اور بیاس دریائے سندھ کا ہی ایک سلسلہ ہیں، سوائے بیاس کے جو ہندوستان سے ستلج میں مل جاتا ہے، یہ تمام دریا، دریائے سندھ میں صادق آباد سے آگے مٹھن کوٹ کے مقام پر ملتے ہیں لہذا دریائے سندھ کے پانی سے چھیڑ چھاڑ پورے ملک کو ایک بحران میں دھکیل دے گی، یہ سندھ نہیں بلکہ پاکستان کا مقدمہ ہے۔
بہرحال پنجاب اگر یہ کہتا ہے کہ وہ کینالوں کے لئے اپنے دریاؤں سے پانی لے گا یا لے رہا ہے تو یہ بات اصولاً غلط ہے کیونکہ چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند لنک کینال کے ذریعے پنجاب پہلے ہی دریائے سندھ کا پانی غیرقانونی طور پر استعمال کررہا ہے، دوسری جانب پنجاب خود ارسا میں یہ کہہ رہا ہے کہ چناب، جہلم اور راوی میں پانی کی کمی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجاب نئی کینالوں کے لئے الگ سے پانی لائے گا۔
پنجاب نے متنازع کینالوں کا منصوبہ نگران دور حکومت میں یکم جنوری 2024 کو ملک میں پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا میں پیش کیا اور 17 جنوری کو یہ منظور ہوگیا جس کی سندھ نے مخالفت کی، وفاقی ادارے سینٹرل ڈولپمنٹ ورکنگ پارٹی نے اسے 11 اکتوبر 2024 کو یہ منصوبہ منظور کیا، اس پلیٹ فارم پر بھی سندھ نے مخالفت کی، سندھ حکومت نے 13 جون 2024 کو مشترکہ مفادات کونسل میں چولستان کینال کے خلاف کیس داخل کردیا کہ ارسا کی این او سی غلط ہے، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ کینالوں والے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جاتا، قومی اسمبلی میں اس پر بحث ہوتی، اس کے بجائے اس معاملے کو گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت ایس آئی ایف سی نام کے ایک نئے ادارے کو سونپ دیا گیا جو صوبائی معاملات میں دخل اندازی کرکے صوبائی خودمختاری پر سوالیہ نشان کھڑے کررہا ہے۔