Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Hamas, Israel Aur Mojooda Halaat

Hamas, Israel Aur Mojooda Halaat

حماس، اسرائیل اور موجودہ حالات

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان 1967 میں ایک بڑی جنگ ہوئی جو چھ دنوں تک جاری رہی، مصر، شام، اردن، عراق، سعودی عرب اور کویت نے مل کر اسرائیل پر حملہ کیا، پاکستان اور لبنان نے بھی ساتھ دیا اور اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں چھین لیں، اردن سے مشرقی یروشلم چھین لیا اور مصر کو سینا اور غزہ کی پٹی سے ہاتھ دھونا پڑے، اسرائیل اس جنگ کا فاتح رہا تھا اور دنیا کے آٹھ مسلم ممالک کی زبردست فوجی طاقت اور ایمانی جذبے کا مقابلہ کرکے، اسرائیل نے سب کو شکست دی تھی۔

اسرائیل کی جیت کا یہ عالم تھا کہ تقریباً 700 اسرائیلی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوئے جبکہ مصر کے 11 ہزار، اردن کے چھ ہزار شام کے ایک ہزار فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا، اسلامی فوج کے سینکڑوں ٹینک تباہ ہوگئے، لگ بھگ 500 جنگی طیارے ملیامیٹ ہوگئے، عرب فوجوں کو نہ صرف اپنے علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ وہ ہتھیار بھی چھوڑ کر بھاگ گئے، جب مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے فوجی فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو پوری دنیا ششدر رہ گئی، اس دن کے بعد سے اسلامی دنیا میں فلسطین کے حق میں صرف مظاہرے ہوتے ہیں۔

اب آجائیں 2023 میں جب "حماس" نام کی ایک عسکری تنظیم نے راکٹ داغ کر اسرائیل سے اچانک جنگ کا آغاز کردیا، "حماس" فلسطین کی نمائندہ نہیں ہے، فلسطین کی نمائندہ وہاں کی حکومت ہے جو فلسطین اتھارٹی کہلاتی ہے، "حماس" کی جانب سے جنگ کرنے کے دو پہلو ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، پہلا پہلو یہ کہ یہ جنگ ریاست فلسطین اور ریاست اسرائیل کے درمیان نہیں ہے جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس اسرائیل کو آٹھ مسلم ممالک زبردست فوجی قوت اور بھرپور ایمانی جذبے کے باوجود شکست نہ دے سکے، ایک عسکری تنظیم بھلا کیا بگاڑ سکتی ہے جبکہ حالات یہ ہوں کہ تقریبا تمام عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرچکے ہیں جبکہ خود ریاست فلسطین اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتی ہے۔

اس سارے منظرنامے میں یہ حقائق محض تلخ پہلو کا ایک حصہ ہیں، یہ حقائق کہیں سے بھی اسرائیل کو مظلوم ثابت نہیں کرتے، اسرائیل ایک جارحانہ ریاست ہے جس کے انتہاپسندانہ عزائم انسانیت کے خلاف جنگ کے مانند ہیں تاہم ہم جب بھی مشرقی وسطی کے سب سے قدیم تنازع پر اپنی رائے قائم کریں تو ہمیں تمام حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا، ایک اسلامی عسکری تنظیم کی جانب سے راکٹ داغنا ایسا ہی ہے کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے دینا۔۔ ہوسکتا ہے کہ اس ہاتھ سے آپ چند بھڑوں کو مسل کر رکھ دیں تاہم ہزاروں بھڑوں نے آپ کا بھرکس نکال دینا ہے کیونکہ زمینی حقائق اسی نتیجے کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔

یہاں ایک اور پہلو بھی اہم ہے کہ یروشلم کا مسئلہ دنیا کے تین بڑے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے یکساں اہمیت کا حامل ہے، اس ضمن میں یہودیوں کا انتہاپسند طبقہ صیہونی ایک الگ صف میں ہے جبکہ عام یہودی، مسیحی اور مسلمان ایک صف میں کھڑے ہیں، فلسطین کاز کے لئے مسلمانوں کے ساتھ مل کر مسیحیوں کی قربانیاں اور جدوجہد کسی صورت نظر انداز نہیں کی جاسکتیں تاہم جب کوئی ایک عسکری تنظیم ایک مذہب کا نام لے کر سولوفلائٹ کرے گی تو وہ نہ صرف فلسطین کاز کے اپنے سارے اتحادی کھودے گی بلکہ اس کاز کو نقصان بھی پہنچائے گی اور شاید "حماس" کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہے۔

موجودہ تنازع میں ان معصوم فلسطینی شہریوں کا تصور کریں جو راکٹ برسنے کے بعد اب اسرائیل کے نشانے پر ہیں، وہ عورتیں، بچے اور بوڑھے بے یارومددگار ہیں جن پر اسرائیل کے جدید جنگی جہاز بم برسارہے ہیں، چند ہزار عسکریت پسند تو اپنی تربیت کی وجہ سے شاید بچ جائیں مگر چاروں طرف سے گھرے ہوئے معصوم شہریوں کی زندگیاں یقینی طور پر اسرائیلی بربریت کا شکار ہوسکتی ہیں، چاروں طرف سے محصور لاکھوں بے بس انسانوں کی زندگیاں ہی خطرے میں نہیں ہیں بلکہ راکٹ بازی کا بہانہ بنا کر خدانخواستہ اگر اسرائیل، ریاست فلسطین کا ہی خاتمہ کردے تو نصف صدی سے زائد کی قربانیاں لاحاصل جائیں گی اور یہ تنازع اسی جگہ پر پہنچ جائے گا کہ جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat