Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Farooq
  4. Tawaif

Tawaif

طوائف

میرے ایک کرم فرما ہیں، وہ میرے لئے نا صرف محترم ہیں بلکہ میں ان کو اپنا استاد بھی مانتا ہوں، میں گاہے بگاہے ان سے رہنمائی لیتا رہتا ہوں اور وہ ہر مرتبہ دل کھول کر مجھ پر شفقت فرماتے ہیں، چند دن پہلے مجھے ان کی جانب سے ایک تحریر موصول ہوئی، تحریر پڑھنے کے بعد میں نے محسوس کیا ہم نے "طوائف" کا لفظ بہت ہی محدود اور فقط عورتوں کے ساتھ مخصوص کردیا ہے حالانکہ یہ تو بہت ہی وسیع اور معاشرے کے بے شمار "کرداروں" کا احاطہ کرتا ہے جنہیں ہم روزمرہ کی زندگی میں نظر انداز کرجاتے ہیں، تحریر پیش کرنے سے پہلے میں یہ عرض کرتا چلوں "اس تحریر کے مصنف نا معلوم ہیں اور اس طرح کی تحاریر، اقوال، جن کے مصنف "نامعلوم" ہوں وہ "اجتماعی اثاثہ" ہوا کرتی ہیں، میں یہ تحریر نوک پلک سنوارنے اور تھوڑی بہت ترمیم کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

میں طوائف کے موضوع پر لکھنا چاہتا تھا، ایک عورت کن مراحل سے گزر کر طوائف کا روپ دھار لیتی ہے، یہ جاننا میرے لئے بہت ضروری تھا، میں نے اس سلسلے میں اپنے دوست سے رابطہ کیا اور اس نے ایک طوائف کے ساتھ میری ملاقات طے کردی، میں کیمبلپور سے لاہور پہنچا اور وہاں سے میں اور میرا دوست ایک گنجان آباد علاقہ کی طرف چل پڑے، ہم تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک مکان کے سامنے رک گئے اور دروازے پر دستک دی، چند لمحوں بعد ایک خوبصورت حسینہ نے دروازہ کھولا اور لکھنوی طوائفوں کی طرح آداب بجا لائی، میرا دوست مجھے وہیں چھوڑ کر واپس چل دیا، طوائف مجھے اپنے ساتھ لے کر اندر چلے گئی اور صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ خود سامنے والے صوفے پر براجمان ہوگئی، میں نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا، وہ بلا کی حسین تھی، اس نے پانی کا گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا "صاحب آپ کے دوست بتا رہے تھے کہ آپ لکھاری ہیں اور طوائفوں پر لکھنا چاہتے ہیں، آپ نے طوائفوں پر لکھنے کے لیے کیمبلپور سے لاہور تک کا سفر کیا، کیوں؟ طوائفیں تو کیمبلپور میں بھی ہیں، میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا، اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور اپنے نازک اور خوبصورت ہونٹوں سے ایک دائرے کی مانند دھواں چھوڑتے ہوئے بولی "ایک کامیاب لکھاری اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے" میں اس کی بات سن کر گھبرا گیا، وہ بولی "آپ میرا انٹرویو ضرور کریں لیکن اس سے پہلے میرا ایک سوال ہے، یہ سوال آپ سے ہی نہیں بلکہ اس پورے سماج سے ہے جو خود کو مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتا ہے"۔

اس کے گال غصے سے سرخ ہورہے تھے اس نے پانی کا گھونٹ پیا اور بولی "صاحب یہاں جج انصاف بیچ رہا ہے لیکن قابل نفرت صرف جسم فروش عورت ہے، سیاستدان یہاں اپنا ضمیر بیچ دیتا ہے مگر ان کو آپ لیڈر مانتے، یہاں ڈاکٹر موت کا کاروبار کرتے ہیں لیکن آپ کی نظر میں یہ مقدس پیشہ ہے، یہاں وکیل اور پولیس رشوت لے کر جھوٹے مقدمات بنادیتے ہیں، پولیس جعلی قتل عام کرتی ہے، یہاں ملک سے وفاداری کا عہد کرکے شب خون مارے جاتے ہیں، یہاں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر حکومت بنائی جاتی ہیں، ملک کے وسائل اور کاروبار پر قبضہ مافیا کا راج ہے، ملک کو معاشی طور پر اپاہج بنا دیا جاتا ہے، حق مانگنے والے غداری کے ٹائٹل سے نوازے جاتے ہیں، یہاں میڈیا دن کو رات دکھاتا ہے، صحافی اپنا قلم ٹکے ٹکے پر بیچ دیتا ہے، یہاں اساتذہ بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں، یہاں تعلیم صرف ایک کاروبار ہے، یہاں زندگی کا ہر شعبہ گرد آلود ہے، پیسے کی خاطر لوگ ملک کو نوچ دیتے ہیں لیکن قابل نفرت صرف طوائف ہوتی ہے، آخر کیوں؟

یہ تو اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کی خاطر اپنا جسم بیچتی ہے، اس کی یہ باتیں سن کر میرے پسینے چھوٹ گئے، وہ مجھے گھبرتا ہوا دیکھ کر بولی "ہم طوائفیں تو مرد نما بھیڑیوں کو لذت کا سامان فراہم کرتی ہیں، جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں وہاں طوائف کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں" اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا "اگر ہم طوائفیں مرد نما بھیڑیوں کی آگ ٹھنڈی نا کریں اور ان کو لذت کا سامان مہیا نا کریں تو یہ معصوم کلیوں کو مسل کر رکھ دیں اور ان کا گوشت نوچ نوچ کر کھا جائیں (کیا ہمارے معاشرے میں آج یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟) میری ساری دانشوری سارے سوالات ہوا میں تحلیل ہوگئے، میں اس طوائف کے سامنے مکمل طور پر لاجواب ہو چکا تھا، وہ اٹھ کر میرے قریب بیٹھ گئی اور میرے گال پر ہلکی تھپکی دیتے ہوئے کہا "صاحب اس شہر کے بڑے بڑے لوگ جو مسیحائی کا لبادہ اوڑھ کر آپ جیسوں کو بیوقوف بناتے ہیں یہ جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ان کی اوقات کتے کے جیسی ہوتی ہے، یہ ہمارے پاؤں کے تلوے اس طرح چاٹتے ہیں جیسے کتے چیزوں کو"۔

اتنا کہہ کر وہ اٹھی اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولی "صاحب جاؤ اب ہمارے گاہگوں کا وقت ہو چکا ہے" میں خاموشی سے اٹھا اور دروازے کی جانب چل دیا اس نے پیچھے سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا "اگر لکھنا ہی ہے تو جسم فروش طوائف کے اوپر نہیں بلکہ ضمیر فروش طوائفوں پر لکھو، اخلاق ایمان اور ملک فروش طوائفوں پر لکھو پھر آپ کو کیمبلپور سے لاہور بھی نہیں آنا پڑے گا" یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کیا اور اندر چلے گئی۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti