Status Nahi Sachi Lagan Darkar Hoti Hai
سٹیٹس نہیں سچی لگن درکار ہوتی ہے
وہ 1جنوری 1973 کو پٹنا شہر کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ اور اس کا خاندان ریلوے لائن کے نزدیک 1کمرے کے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، وہ جنونی حد تک تعلیم حاصل کرنے کا شوقین تھا، اس کے گھر میں اتنی جگہ نہ تھی جہاں آرام سے بیٹھ کر پڑھا جاسکے، وہ گھر سے کچھ فاصلے پر موجود امرود کے درخت کے نیچھے بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ اس نے پٹنا ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، غربت اس قدر تھی کہ اس کے تمام دوست اعلی تعلیم کیلئے دلی چلے گئے لیکن اس کے پاس دلی جانے کا کرایہ تک نہ تھا، اس دوران اس نے میتھ پر ایک آرٹیکل لکھا جسے پوسٹ کرنے کے لئے بھی پیسے نہ تھے، اس کا والد پوسٹل ڈیپارٹمنٹ میں بطور کلرک کام کرتا تھا، والد نے دوستوں سے کچھ رقم ادھار لی اور بیٹے کا آرٹیکل پوسٹ کروایا، آرٹیکل اس قدر شاندار تھا کہ اسے کیمبرج یونیورسٹی شائع کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اسے یونیورسٹی کی طرف سے تعلیم کی آفر ملی لیکن غربت نے اسے پٹنا سے باہر نہ نکلنے دیا۔
اس کے باپ کو کیمبرج میں نہ پڑھنے کا اتنا گہرا دکھ پہنچا کہ وہ صدمے میں انتقال کرگیا پورے گھر میں کہرام مچ گیا، جیسے ساری دنیا کی مصیبتیں اسی پر نازل ہوگئی ہوں۔ اس نے پریشانی کے اس عالم میں بھی تعلیم جاری رکھی اور بہار نیشنل کالج سے گریجویشن کرلی لیکن گھریلوں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے، ہر دن اپنے ساتھ اک نئی مصیبت لیکر طلوع ہوتا تھا، اسے گھر سنبھالنے کیلئے پاپڑ بیچنا پڑے۔ اس کی ماں پاپڑ بناتی اور وہ گلیوں میں "آنند پاپڑ لے لو" کی آوازیں لگاتا، ایک دن اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا: "میں کب تک ایسے گلیوں میں خوار ہوتا رہوں گا، مجھے بہرحال اب رکنا ہوگا اور یہی خیال آگے چل کر سپر 30 کی بنیاد بنا۔ اس نے اپنے گھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا، اس نے گھر کو سکول میں بدلا اور غریب بچوں کو آئی آئی ٹی(انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کے جے ای ای (جوائنٹ انٹرنس ایگزیم) کی تیاری کروانے لگا، یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا کیوں؟ کیونکہ آئی آئی ٹی کا یہ ایگزیم انڈیا کا مشکل ترین ایگزیم مانا جاتا ہے۔
یہ ایگزیم پاس کرنے والے طالبعلم کو IIT میں داخلہ مل جاتا ہے اور IIT میں پڑھنا کسی اعزار سے کم نہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی انڈیا اپنے بجٹ کا بہت بڑا حصہ IIT پر خرچ کرتا ہے۔ IIT انڈین ایجوکیشن کا مضبوط ستون ہونے کے ساتھ ساتھ انڈیا کا دماغ بھی مانی جاتی ہے IIT کی مجموعی طور پر 23 برانچز ہیں۔ QS ورلڈ یونیورسٹیز کے 2020 کے سروے کے مطابق IIT بمبی اور IIT دہلی بالترتیب 42 اور 47 ویں نمبر پر ہیں۔ فیس بک کے CEO سندر پچائی، دہلی کے چیف منسٹر آرویندر کیجری وال GOA کے 10th چیف منسٹر مانوہر پاریکر، Flipkart کے CEO سچن بھنسل اور بھنی بھنسل، جبکہ INFOSYS کمپنی کے کوفاؤنڈر نارین مورتی IIT سے فارغ ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں آستھا آگریوال کو جو IIT کے آخری سال میں ہیں انھیں فیس بک کی طرف سے سالانہ 2کڑوڑ روپے کی ملازمت کی آفر ملی ہے جو ایک دن کے 54795 روپے بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ IIT میں داخلہ لینا IIT میں پڑھنے سے کئی گنا مشکل ہے۔ آپ اس کا اندازہ چند حقیقتوں سے بھی لگاسکتے ہیں، JEE (جوائنٹ انٹرنس ایگزیم) کی تیاری میٹرک کے فورا بعد شروع کردی جاتی ہے۔ JEE کا امتحان دینے کیلئے بچے کا فزکس، کمیسٹری اور میتھ میں ایکسپرٹ ہونا لازمی ہے، انگلش کی پکڑ بھی بہت مضبوط ہونی چاہیے کیونکہ سارا سلیبس انگلش زبان میں ہوتا ہے۔ امتحان کیلئے کوچنگ کلاسز لینا پڑتی ہیں جن کی دوسال کی فیس 2سے 5لاکھ روپے بنتی ہے۔ JEE کا امتحان دو حصوں میں ہوتا ہے"مین اور ایڈوانس" IIT میں داخلے کیلئے دونوں حصوں میں پاس ہونا لازمی ہے وگرنہ آپ ڈس کوالیفائی کردیے جاتے ہیں۔
لیکن اس نے غریب بچوں کو اکٹھا کیا اور مفت تعلیم دینا شروع کردی، لوگ اس کا مذاق اڑاتے، ٹیچر اس پر آوازیں کستے اور اوئے اوئے کے نعرے لگاتے۔ یہ لوگ اور کرتے بھی کیا؟ جب ایک بھوکا ننگا اور مصیبتوں کا مارا شخص اتنا بڑا فیصلہ کرلے تو اسے ٹھینگا ہی دکھایا جاسکتا ہے اور دنیا آج تک یہی تو کرتی آئی ہے لیکن وہ ڈٹا رہا۔ اس نے اپنے فیصلے پر قدم جمائے رکھے، اب اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا "اپنے جیسے تعلیم کے شوقین ہر محروم بچے کا سہارا بننا اور انھیں IIT میں داخلہ دلوانا، اور اسی مقصد کے لئے اس نے گھر کے ایک حصے کو سکول میں بدل دیا چونکہ اس کے پہلے سٹوڈنٹس کی مجموعی تعداد 30 تھی چناں چہ سکول کا نام اسی تعداد پر "سپر30" رکھ دیا، وہ بچوں کو تعلیم بھی دیتا، ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی کرتا، اور انھیں کتابیں بھی خرید کردیتا، اس کا کہنا تھا اگر پہلے سال 30 میں سے 5 بچے بھیIIT کیلئے کوالیفائی کرجائیں تو اس کیلئے بہت بڑی اچیومنٹ ہوگی لیکن پہلے ہی سال میں 30-18 بچوں نے کوالیفائی کیا، یہ ایک حیران کن کامیابی تھی، آنے والے سالوں میں کوالیفائیڈ سٹوڈنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
2004/30-22، 2005/30-26، 2006/30-28، 2007/30-28، 2008/30-30، 2009/30-30، 2010/30-30، 2011/30-24، 2012/30-27، 2013/30-28، 2014/30-27، 2015/30-25، 2016/30-28، 2017/30-30، 2018/30-26۔
2018 تک 480 بچوں میں سے 409 بچوں نے IIT کیلئے کوالیفائی کیا، سپر 30 اپنی کامیابیوں پر مشہور ہونے لگا یہاں تک کہ آج سپر 30 انڈیا کا سب سے اچھا سکول مانا جاتا ہے۔ 2013 میں ٹائم میگزین نے سپر30 کو ایشیاء کا نمبرون سکول قرار دیا، اسی سال نیوز ویک نے سپر30 کو دنیا کے ٹاپ4 سکولوں میں جگہ دی۔
یہ بات آپ کیلئے انکشاف ہوگی:
یہ سکول کسی فنڈ 'پرائز' یا بونس کے بغیر چل رہا ہے یہ صرف اور صرف غریب 'ذہین' اور مستحق بچوں کو JEE کیلئے تیار کرتا ہے۔ جبکہ ان بچوں سے صرف 500 روپے سالانہ وصول کیے جاتے ہیں چناں چہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب سے کامیاب ہونے ہوتا گیا۔
ہر اگتا دن اس کیلئے خوشی کے پیام لانے لگا آوازیں کسنے والے اوئے اوئے کہہ کہہ کر مخاطب کرنے والے "آنند کمار سر" کہہ کر پکارنے لگے جی ہاں اس شخص کا نام "آنند کمار" ہے جو 2002 سے پہلے محروم تھا، بے بس تھا پسماندگی میں گھرا اور لاچاریت میں دھنسا ہوا تھا لیکن آج اسی آنند کمار کو جس کے پاس دلی تک جانے کا کرایہ نہ تھا بڑے بڑے فارمز پر گفتگوں کیلئے بلایا جاتا ہے۔ اسے S۔Ramanujan اور Shiksha puraskar ایوارڈز سے نوازا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی نے اس کے انٹرویوز نشر کیے۔ ڈسکوری چینل نے اس پر 1گھنٹے کی ڈاکیومنٹری فلم چلائی۔ کینڈین رائٹر ڈاکٹر بیجو میتھیو نے سپر30 کے نام سے کتاب لکھی جسے پینگوین اورینڈم ہاؤس نے پبلش کیا، آج لوگ اس سے اس کی کامیابی کا راز پوچھتے ہیں۔
تو وہ مسکرا کر کہتا ہے: اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر لازمی نہیں کہ آپ پرائم منسٹر ہوں، سیلی بریٹی ہوں یا پھر سماجی وسیاسی شخصیت۔ عقلمند وہ ہے جو اپنا سٹیٹس دیکھے بغیر خوابوں کو پانے میں جت جائے۔ اس کا کہنا تھا ہم میں سے اکثر لوگ خدائی مدد کے منتظر رہتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ آسمان سے فرشتے اتریں گے اور پھر میرا کام ہوگا، ایسے لوگوں کو زندگی مسکراتے ہوئے "بیوقوف" کہہ کر نکل جاتی ہے اور ان کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ آنند کمار کہتا ہے اپنے خوابوں کو چھوٹا مت سمجھیں بلکہ ان کے لئے جان لڑادیں کیونکہ جان لڑانے والوں کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، وہ ہجوم سے مخاطب ہوتے ہوئے پرجوش انداز میں کہتا ہے" اس ملک(انڈیا) کو ایک نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں آنند کماروں کی ضرورت ہے جو کڑوڑوں ذہین غریب بچوں کو تعلیم دلواسکیں کیونکہ اب راجہ کا بیٹا راجہ نہیں بنے گا، بلکہ راجہ وہ بنے گا جو راجہ بننے کا حقدار ہے۔ آنند کمار نے غربت سے نکل کر پوری دنیا میں پہچان بنائی اور اپنے جیسے بیشمار بچوں کا محسن ثابت ہوا، اس نے ثابت کیا "اگر ہم کچھ کرنا چاہیں تو پھر غربت میں رہ کر بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں" ناکامیوں پر ماتم کرنے والوں سے دنیا پہلے ہی بھری پڑی ہے۔
کاش ہم بھی ایک آنند کمار پیدا کرسکیں تاکہ ہمارے مستحق، غریب اور ٹیلنٹیڈ بچے ضائع ہونے سے تو بچ جائیں۔ کاش ہم ایک ایسا سکول ہی بنالیں جو تعلیم کو تعلیم سمجھے نہ کہ بزنس اور کاش میں ناکامی کا رونا رونے والوں سے عرض کرسکوں۔ حضور کامیاب ہونے کیلئے سٹیٹس کی نہیں بلکہ آنند کمار جیسا سچا حوصلہ'لگن' اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔