Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Farooq/
  4. Seerat e Tayyaba Hi Azmaton Ki Zamin

Seerat e Tayyaba Hi Azmaton Ki Zamin

سیرت طیبہ ہی عظمتوں کی ضامن

ہم مسلمان دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کب چلیں گے...؟ ہم دنیا سے اتنا پیچھے کیوں رہ گئے ہیں ...؟ مسلمان ہونے کی وجہ سے...؟ لیکن مسلمان تو ہم گولڈن ایج (سنہری دور) میں بھی تھے، آئے روز نت نئی ایجادات دنیا کے سامنے لایا کرتے تھے، پھر کیا ہوا کہ نہ ایجادات رہیں نہ ہی وہ مسلمان؟ " بات سیدھی سی ہے" مسلمانوں نے حضور ﷺ کی تعلیمات کو نظر انداز کردیا، علم سے دوری اختیار کرلی اور اپنے اباؤ اجداد کے رستوں سے ہٹ گئے جن کی عظمتوں کے نشان آج بھی تاریخ کے سینے پر ثبت ہیں، جنھوں نے حضور کی زندگی سے رہنمائی لی۔ رسالت ماب ﷺ کی شان تو یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزرجانے کے باوجود آپ کی عظمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، چودہ سو سالوں میں تو کیا کچھ ہوجاتا ہے، کتنی تہذیبیں مٹ گئیں، کتنی قومیں خاک میں مل گئیں، ریاستوں کے نام و نشان تک نہ رہے، بے شمار نسلیں زمین کے سینے میں اتر گئیں، پرانے لوگوں کی جگہ نئے لوگ آباد ہوگئے، آندھیاں آئیں، طوفان آئے اور تو اور تاریخ بھی تاریخ کا حصہ بن گئی لیکن حضور کی عظمت کا ستارہ جگمگاتا رہا۔

آپ کی سیرت عالیہ اور افکار عظیمہ سے آج بھی "انسانیت" فیضیاب ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ رہتی دنیا تک چلتا رہے گا، لوگ آتے جائیں گے اور حضور کی عظمتوں کے گن گاتے جائیں گے وہ پھر اپنے ہوں یا پرائے مزے کی بات تو یہ ہے کہ "اپنے بھی کبھی پرائے ہی تھے" حضور تو تن تنہا تھے لیکن پھر سب نے دیکھا "لوگ ملتے گئے اور قافلہ بنتا چلا گیا" ۔نپولین بونا پارٹ جسے تاریخ خود "فاتح اعظم" کہہ کر پکارتی ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا "محمد (رحمت عالم) کی ذات مرکز ثقل ہے، جس کی طرف لوگ کھنچے چلے آتے ہے، ان کی تعلیمات نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا اور کچھ ہی سالوں میں ایسا گروہ پیدا ہوگیا جس نے نصف دنیا پر اسلام کا پرچم لہرا دیا، انہوں نے دنیا کو جھوٹے خداؤں سے چھڑایا اور بت پرستی کا قلع قمع کیا۔موسی و عیسی نے پندرہ سو سالوں میں کفر کی اتنی نشانیاں ختم نہ کی تھیں جتنی آپ ﷺ نے 15 سالوں میں ختم کردیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ "محمد ایک بہت ہی بڑی ہستی ہیں " یہاں پر مائیکل ہارٹ کو مینشن نہ کرنا بہت زیادتی ہوگی، یہ عیسائی ہیں اور عیسائیوں کا اسلام سے "بغض و عناد" کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، عیسائیوں نے اسلام کے خلاف جو زہر اگلا، جھوٹے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کیے یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں مگر مائیکل ہارٹ کا خود عیسائی ہو کر حضور علیہ السلام کو سرفہرست رکھنا بہت جگرے کی بات ہے "حقیقت ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو اندھیروں میں بھٹکنے سے بچاتی ہے" مائیکل ہارٹ کہتا ہے "اگر مارکونی ریڈیو ایجاد نا کرتا تو چند سالوں بعد کوئی دوسرا آدمی یہ کارنامہ سرانجام دے دیتا، چارلس ڈارون اگر تحقیق و جستجو نہ کرتا تب بھی "نظریہ ارتقا" دنیا کے سامنے آجانا تھا لیکن محمد واحد شخصیت ہیں جنہوں نے جو کارنامے سرانجام دیئے انہیں سرانجام دینا دنیا کے کسی دوسرے آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، چنانچہ میں آپ کو سرفہرست رکھنے پر مجبور ہوں"۔

کیا حقیقت بھی یہی نہیں؟ آپ دنیا کی 10 ہزار سالہ ریکارڈڈ ہسٹری اٹھا کر دیکھ لیں، آپ پر یہ عیاں ہوتے زیادہ دیر نہیں لگے گی "آپ ﷺ حقیقتا رحمة اللعالمین ہیں " کیا کیا کہوں، کس کس کا نام لکھوں، میرے سامنے غیر مسلموں کی ایک پوری لسٹ پڑی ہوئی ہے جو حضور کی عظمت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے وہ پھر تھامس کارلائل ہو، ہمفرے ہو، ڈاکٹر ای اے فریمن ہو، مسٹر سار ہو، ڈاکٹر لین پول ہو، ڈاکٹر بدہ ویر سنگھ دہلوی ہو، سوامی برج نارائن، کملا دیوی، لکشمن نارائن، وشوانرائن یا پھر مہاتما گاندھی ہو، حضور اکرم کی عظمت و رفعت میں رتی بھر شک کی گنجائش تو کیا ہم اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

لیکن یہاں پر میں آپ کی توجہ ایک دلچسپ صورتحال کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا، چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود حضور کی توصیف کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں، لوگ آج بھی دھڑا دھڑ مسلمان ہوتے جا رہے ہیں، قرآن آج بھی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، ایک اندازے کے مطابق 2050 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بھی ہوگا اور دوسری طرف پورا عالم اسلام ذلیل در ذلیل، رسوا در رسوا اور خوار در خوار ہو رہا ہے، اسلام بلندیوں کی انتہا کو چھو رہا ہے اور مسلمان پستیوں کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ پیغام بھیجنے "والا" غلط نا پیغام "لانے والا" اور نا ہی بذات خود "پیغام" اور پھر ہم یہ دھاڑتی، چیختی اور شور مچاتی حقیقت بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں "مسئلہ کہیں اور نہیں مسئلہ ہماری ذات میں ہے، ہماری سوچ اور ہمارے اعمال میں ہے، اصل مسئلہ ہماری منافقت ہمارے دوغلے پن ہیں، ہم دنیا میں ذلیل و رسوا "مسلمان" ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ "مسلمان نا" (یہاں پر مراد فقط اجتماعی سطح پر عملی اسلام کا فقدان ہے) ہونے کی وجہ سے ہو رہے ہیں اور ہم جب تک خود کو اسلام کے سانچے میں نہیں ڈال لیتے دنیا تب تک ہمیں اینٹھتی رہیں گی، یہ تب تک ہماری پیٹھ پر کوڑے برساتی رہے گی۔

ہمارے آباؤ اجداد جب تک اسلام سے رہنمائی لے کر چلتے رہے تب تک دنیا کی باگ دوڑ ہمارے ہاتھوں میں تھی اور جس دن ہم نے اسلام سے منہ موڑ لیا، ہم دنیا کو آنکھیں دکھانے کے قابل بھی نہ رہے، ہماری عزتیں ہمارے فیصلے، ہماری معیشتیں دنیا کے پاس گروی ہوگئیں اور وہی دنیا حضور کے بتائے ہوئے رستوں پر چل کر ہم پر حکمرانی کرنے لگی لیکن آپ یہ ذہن میں رکھیں "جس دن ہم رسالت مآب سے رہنمائی لے کر چلنے لگ پڑے، ہم نے حضور کے قدموں میں سر رکھ دیا اور آپ ﷺ کے آفاقی اصولوں کو اپنا کر دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں یہ زوال عروج میں بدلتے زیادہ دیر نہیں لگائے گا، بس رحمت ماب ﷺ کو پہچاننے اور ان کے بتائے ہوئے رستوں پر چلنے کی دیر ہے۔

Check Also

Labour Day

By Hussnain Nisar