Saima Salman Se Aik Mulaqat
صائمہ سلمان سے اک ملاقات
امریکہ پاکستان سے 10554 کلومیٹر دور ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں پورے امریکہ میں ریسرچ اور تحقیق کا کام زور وشور سے جاری تھا۔ علم نفسیات کے شعبہ میں بھی آئے روز انسانی ذہن اور افعال کے متعلق نت نئے انکشافات ہو رہے تھے۔ 27 ستمبر 1913 میں پنسلوینیا میں Albert Allis کی پیدائش ہوئی۔ ایلس نے 1934 میں بزنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ 1943 میں 'کلینکل سائیکالوجی' میں ماسٹرز کیا اور فوراً کلینکل سائیکالوجی میں PHD شروع کردی۔
البرٹ ایلس کا شمار دنیا کے نامور نفسیات دانوں میں ہوتا ہے، یہ کتنے بڑے ماہر نفسیات تھے۔ آپ اس کا انداز 2006 میں ماہرین نفسیات کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے کر لیجیۓ۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق "البرٹ ایلس دنیا کے دوسرے بڑے بااثر اور قابل ماہر نفسیات ہیں" کارل راجر کا پہلا نمبر تھا، جبکہ لسٹ میں سگمنڈ فرائڈ تیسرے نمبر پر تھے۔ البرٹ ایلس نے 1961 میں A Guide to rational living کے نام سے ایک کتاب لکھی۔
یہ کتاب پوری دنیا میں اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب رہی۔ اس نے پاکستان میں بھی ایک بچی پر اپنا اثر چھوڑا جو آگے چل کر "صائمہ سلمان" کے نام سے مشہور ہوئیں۔ صائمہ سلمان واحد پاکستانی شخصیت ہیں۔ جنھیں البرٹ ایلس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ البرٹ ایلس جن سے متاثر ہوا ہے۔ لیکن یہ بہت بعد کی کہانی ہے۔ اس کہانی کا آغاز کٹھن بھی تھا اور مشکل بھی۔
صائمہ سلمان نے جب پہلی مرتبہ البرٹ ایلس کی کتاب A Guide to rational living پڑھی تو یہ ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھیں، یہ انتہائی حساس تھیں۔ ان کے سامنے ان کے والد کے دوست کا انتقال ہوا تھا، لہذا یہ شدید 'ذہنی دباؤ' کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے ذہنی دباؤ سے نکلنے کے لئے ہر طریقہ آزمایا، لیکن بے سود، پھر ایک دن صائمہ سلمان کو البرٹ ایلس کے کتاب مل گئی۔ یہ کتاب پڑھ کر مطمئن ہوگئیں، کتاب میں ایلس کا کہنا تھا۔
ہمیں زندگی کے معاملات کو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بغیر کسی شکوہ شکایت کے قبول کرنا چاہیے۔ صائمہ سلمان کہتی ہیں"جب میں نے اس بات کو اسلام کے نقطہ نظر سے جوڑ کر سمجھے کی کوشش کی تو مجھے قرآن کا پیغام کہیں واضح، گہرا اور بصیرت انگیز دکھائی دیا۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں"میں کسی بھی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا" صائمہ کہتی ہیں۔
اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ ہم پر آنے والی مشکلات خدا کی طرف سے ہیں اور ہم پورے یقین کہ ساتھ 'دل اور دماغ' سے ان کو قبول کرلیں تو ہماری زندگی بے حد آسان ہو سکتی ہے۔ خدا پر یہ ایمان ہمیں اندر سے مضبوط اور کامل بنا سکتا ہے" یہ کتاب پڑھنے کے بعد صائمہ سلمان نے مستقبل میں ایلس کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 1987 میں 16 سال کی بچی کا یہ خواب 'ایک دیوانے کی بڑ' سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ دنیا دیوانوں کی ہی تو ہے۔
یہ کہتی ہیں" میں نے چار سال مسلسل کام کیا۔ ایک پائی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کی۔ میں نے البرٹ ایلس کے ساتھ کام کرنے کا خواب دیکھا تھا اور مجھے اس کو پورا کرنے کی تیاری کرنی تھی" آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو ان دنوں شوکت خانم کا نیا نیا آغاز ہوا تھا۔ یہ شوکت خانم کی پہلی Interne تھیں، جنھیں عمران خان کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔ یہ اس دوران کام بھی کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ البرٹ ایلس کو خط لکھنے شروع کردیے۔
انہوں نے اپنے ایک خط میں ایلس کو لکھا "میں REBT کو مذہبی سانچے میں ڈھال کر کروڑوں لوگوں کی زندگی میں بہتری لاسکتی ہوں۔ آپ کا کام حقیقت پسند اور غیر مذہبی فرد پر تو بہت اچھا اثر رکھتا ہے تاہم ایک مذہبی فرد شاید اس سے استفادہ نہ کرسکے جبکہ ایک ماہر نفسیات ایسی چیزوں سے باہر نکل کر فقط اپنے مریض کی بہتری کی توقع کرتا ہے۔ البرٹ ایلس کو جب یہ خط ملا تو وہ بے انتہاء خوش ہوئے۔
صائمہ سلمان بتاتی ہیں"اس زمانے میں دنیا بھر سے موصول ہونے والے خطوط کا جواب دینے کے لئے البرٹ ایلس نے ایک ٹائپ رائٹر رکھا ہوا تھا۔ یہ سب خطوں کا جواب دیتا تھا، لیکن میرا خط ایلس کو اتنا اچھا لگا کہ انہوں نے خود اس کا جواب لکھا" وہ لکھتے ہیں"آپ نے اسلام اور REBT کے عنوان سے جو پیپر ہمیں بھیجا ہے، وہ میری نظر میں ایک شاندار پیپر ہے۔ میں مستقبل میں آپ کے کام کو اپنی کتاب میں REBT with religious person کے نام سے استعمال کروں گا۔
میں آپ کے مواد کا زیادہ تر حصہ اگلے ایڈیشن میں استعمال کروں گا، کیونکہ پہلا ایڈیشن اب شائع ہونے کو ہے۔ آپ نے واضح کیا اسلام کیسے Unconditional self acceptance پر زور دیتا ہے" Great work صائمہ سلمان نے اس کے بعد نہ صرف البرٹ ایلس کے ساتھ برسوں کام کیا، بلکہ ان کو جان بیک کے ساتھ بھی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ یہ ایک عرصہ تک نیویارک اور فرانس میں کام کرتی رہیں اور گزشتہ 16 برسوں سے سنگاپور میں بطور ماہر نفسیات خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
صائمہ سلمان چند ہفتے پہلے پاکستان تشریف لائیں اور مجھے اپنے ساتھ گفتگو کا موقع دیا۔ ہم نے دو گھنٹے کی نشست میں بہت اہم موضوعات پر گفتگو کی۔ صائمہ موٹیویشنل اسپیکرز سے کافی نالا دکھائی دیں۔ ان کا کہنا تھا "موٹیویشن ایک حد تک سب انسانوں کی زندگی کا جزو ہے، یہ مایوس انسان کو دوبارہ اٹھ کھڑے ہوئے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ لیکن موٹیویٹر خود کو ماہر نفسیات سمجھ کر ڈپریشن، انگزائٹی اور ذہنی عارضوں کا علاج کرنا شروع کر دے تو یہ غیر اخلاقی حرکت ہے۔
ایسے لوگوں سے پرہیز کرنا چاہیے، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ صبح کو موٹیویشن بیچیں اور شام کو نفسیات کا ٹھیلہ لگا لیں۔ اسی طرح وہ یہ شکوہ کرتی بھی دکھائی دیں کہ "ہماری نوجوان نسلوں میں سیکھنے کی چاہ نہیں۔ میری اندر ایلس تک پہنچنے کی آگ تھی۔ مجھے خود پر، اپنے خدا پر اور اپنی کئی ہوئی محنت پر یقین تھا، جبکہ آج کی نسل اس آگ اور جذبہ سے محروم ہے، جو زندگی میں آگے نکلنے کے لئے درکار ہوتا ہے۔
یہ ایجوکیشنل سسٹم، اساتذہ اور سوسائٹی کو بھی قصور وار سمجھتی ہیں تاہم ان کے نزدیک ہاتھ پر ہاتھ دھرے غیبی مدد کے منتظر نوجوان بھی اتنے ہی قصور وار ہیں" صائمہ سلمان ایک عرصہ سے علم نفسیات کی اسلامی نقطہء نظر سے وضاحت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ قرآنک فلاسفی پر کتاب لکھ رہی ہیں۔ یہ چار مرتبہ اس کتاب کو روک چکی ہیں۔ یہ کہتی ہیں۔
میں جب جب قرآن کو انسانی نفسیات پر روشنی ڈالتے، زندگی کے بڑے بڑے معاملات میں اپنا نقطہ بیان کرتے ہوئے، دیکھتی ہوں تو دنگ رہ جاتی ہوں" امید ہے کہ یہ نہ صرف اپنی کتاب کو مکمل کرلیں گی، بلکہ مزید کتابیں لکھ کر اپنا کام منظر عام پر لاتی رہیں گی۔ اس ملک میں صائمہ سلمان جیسے لوگ بہرحال نایاب ہیں۔ 16 سال کی لڑکی نے جو خواب دیکھا وہ 'دیوانے کی بڑ' ثابت ہونے کے بجائے حقیقت میں بدلا۔ اگر صائمہ سلمان نے لڑکی ہو کر اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے تو باقی لڑکیوں کو صائمہ سلمان بننے سے کون روک رہا ہے؟