Mullah Nasreddin Khawaja Aur Kamal Farasat
ملا نصرالدین خواجہ اور کمال فراست
ملا نصرالدین خواجہ اپنی حاضر دماغی، حاضر جوابی، دانشوری، سبق آموز حکایتوں اور کہانیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں، آپ کی حکایات، قصے اور کہانیاں عرب، چین، اہل فارس، رشین اور پورپینز تک کے ہاں مشہور ہیں۔ 736 سال گزرجانے کے باوجود ملا نصرالدین کو یاد کیا جاتا ہے بلکہ ان کی سبق آموز کہانیاں، دلچسپ جوابات اپنی پوری تابناکی کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں تروتازہ ہیں۔آج بھی ہر ترک ملا نصرالدین سے بخوبی آشنا ہیں، ملا نصر الدین خواجہ سے میرا پہلا تعارف بھی ترکوں کی بدولت ہوا، جہاں ترکی کا بچہ بچہ ملا نصرالدین سے واقف ہے وہیں ملا نصرالدین ترکوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں، کیوں کہ مجھے بھی ترکی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے لہذا تعلیمی دورانیہ کے دوران گاہے بگاہے ملا نصرالدین کا ذکر سننے کو ملتا رہتا تھا۔
ملا نصرالدین خواجہ (Nasreddin hoca) 1208 میں ایسکی شہر(Eskişehir) کے گاؤں ہورطو (Hortu) میں پیدا ہوئے، والد عبداللہ افندی (Abdullah efendi)اسی گاؤں میں امام مسجد تھے جبکہ آپ کی والدہ صدیقہ خاتون(Sıdıkka Hatun) گھر کے کام کاج اور دیکھ بھال کرتی تھیں، ملا نصرالدین خواجہ نے ابتدائی تعلیم ایسکی شہر میں حاصل کی، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ سیوری حصار (Sivrihisar) تشریف لے گئے، جہاں دینی اور عصری علوم حاصل کیے، اس دوران آپ کے والد عبداللہ افندی وفات پاگئے، آپ سیوری حصار سے گاؤں واپس لوٹے اور والد کی جگہ امامت کے فرائض سرانجام دینے لگے مگر کچھ عرصے بعد آپ کی طبیعت مچلنے لگی چناں چہ گاؤں چھوڑ کر اق شہر (Akşehir) تشریف لے گئے جہاں پر سید محمد حیرانی کی شاگردی میں تصوف کا علم حاصل کیا، آپ عمر بھر اق شہر میں ہی رہے اور 1284 میں یہاں پر وفات پائی۔
ملا نصرالدین خواجہ ہنسی مزاح میں ایسی گہری بات کرجاتے تھے کہ سننے والا آپ کی دانشمندی اور حس مزاح کی داد دیے بغیر نہ رہ سکتا، آپ بھی چند نمونے ملاحظہ کریں:ایک مرتبہ ملا نصرالدین کا پڑوسی ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا، ملانصرالدین باہر آئے اور بولے "افندم(جناب) حکم کریں "
" ایک چھوٹی سی گزارش ہے...نصرالدین" پڑوسی نے جواب دیا
"جی فرمائیں "
"کیا مجھے آپ کا گدھا مل سکتا ہے، میں نے شہر کو جانا ہے، میں کہاں پیدل خوار ہوتا پھروں گا، سوچا آپ کا گدھا لیکر چلا جاتا ہوں "۔
" گدھا تو کہیں گیا ہوا ہے، میں آپ کی مدد نہ کرپانے پر معذرت خواہ ہوں " ملا نصرالدین خواجہ نے جواب دیا، پڑوسی واپس جانے کیلئے مڑا ہی تھا کہ پیچھے سے گدھے کی آوازیں آنے لگیں، پڑوسی نے حیرت کے ساتھ ملا نصرالدین کی طرف دیکھا اور غصہ سے بولا "آپ نے تو کہا تھا گدھا پہلے سے ہی کہیں گیا ہوا ہے" ملا نصرالدین خواجہ مسکرائے اور فرمایا "تم مجھے یہ بتاؤ تمہیں مجھ پر یقین ہے یا اس گدھے کے بچے پر"۔
بلکل اسی طرح ایک دن ملا نصرالدین گدھے پر انگوروں کے ٹوکرے لاد کر کہیں جارہے تھے کہ رستہ میں کچھ نوجوان ملا نصرالدین کے قریب آئے اور انگور مانگنا شروع کردیے، ملا نے انگوروں کے دو دو دانے توڑے اور نوجوانوں کو تھمادیے، ملا نصرالدین خواجہ کی کمال سخاوت سے مثاتر ہو کر ایک نوجوان سے رہا نہ گیا اور وہ بولا " ملا نصرالدین یہ کیا...؟ آپ کے پاس تو اتنے زیادہ انگور ہیں اور آپ نے ہمیں دو دو دانے دیے"، ملا نصرالدین نوجوان پر نظریں گاڑتے ہوئے بولے"بیٹا انگور، انگور ہی ہوتے ہیں، وہ چاہے کم ہوں یا پھر زیادہ"۔
بظاہر عام دکھائی دینے والے یہ واقعات ملا نصرالدین کی دانشمندی اور کمال فراست کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ہم زندگی میں اکثر ایسے لوگوں سے روبرو ہوتے ہیں جو ملا نصرالدین کے پڑوسی کی طرح ملا کے بجائے گدھے کی بات سنیں گے، آپ ان سے کہیں گے" یہ کام ایسے ہے" وہ کسی دوسرے سے سن کر آپ کو کہیں گے "جناب آپ نے تو یوں کہا تھا جبکہ یہ صاحب تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں " آپ ٹیچرز سٹوڈنٹس کی مثال ہی لے لیجئے" ہمارے ایک ٹیچر نے کلاس میں سب کو بتایا کہ آپ نے یہ یہ اسباق تیار کر کہ لانے ہیں، اگلے دن ایک لڑکا ہاتھ کھڑا کر کہ کہنے لگا استاد جی آپ نے جن اسباق کا کہا وہ تو میں نے یاد نہیں کیے، پوچھا گیا کیوں ...؟ وہ کہنے لگا میرے دوست نے کہا تھا یہ والا سبق یاد کرو یہ زیادہ اہم ہے" ٹیچر بولا "بیٹا میں نے جو جب آپ کو بتایا تھا آپ نے یہ سب چیزیں تیار کرکے لانی ہیں تو پھر آپ نے میرے بجائے اپنے دوست کی بات کیوں سنی...؟
اسی طرح دوسرے واقعہ سے عام کو بھی عام نہ سمجھنے کا اشارہ ملتا ہے، ہم زندگی میں پانی پلانے، سڑک پار کروانے، سڑک سے پٹھر ہٹانے، گند نہ ڈالنے، کسی کا بھلا کردینے، دو میٹھے بول بول دینے اور کسی کی طرف مسکرا کر دیکھ لینے جیسی بیشمار چھوٹی نیکیوں کو چھوٹا سمجھ کر ان سے محروم ہوجاتے ہیں، ہم بیشمار چھوٹے چھوٹے گناہوں کو چھوٹا سمجھ کر اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں حالانکہ جن چیزوں کو ہم عام سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں یہی "عام" کل کو "خاص" بن جاتی ہیں، ملا نصرالدین خواجہ کے حوالے سے کتابیں بھری پڑی ہیں، ترکی میں آج بھی 5 سے 10 جولائی کو "نصرالدین خواجہ انٹرنیشنل فسٹیول" منایا جاتا ہے جہاں پر آپ کی فراست کو جی بھر کہ خراج عقیدت اور سلام پیش کیا جاتا ہے۔