Mera Kya Qasoor Hai?
میرا کیا قصور ہے؟
وہ مجھے سڑک کے کنارے ملا تھا، اس نے زوردار آواز ماری اور میں اس کی حالت دیکھ کر فورا رک گیا، اس کے ہاتھوں پر گرد کی تہیں جمی ہوئی تھیں، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، پھٹے کپڑے، چلنے سے قاصر، ٹانگیں مفلوج اور پورا جسم مٹی سے لتھڑا ہوا تھا، وہ تپتی زمین پر رینگ رینگ کر چلنے کی کوشش کررہا تھا، وہ اپنے جسم کا سارا بوجھ بازوؤں میں منتقل کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا مگر کہا تک؟ جب ٹانگیں مفلوج اور جسم کے مسلز حد درجے تک کمزور ہوں، وائرس آپ کے وجود کا انگ انگ نچوڑ کر رکھ دے پھر انسان کہا تک آگے بڑہ سکتا ہے؟ اور وہ بھی اس وقت آگے بڑھنے کی اک ناکام کوشش کررہا تھا تھک ہار کر اس نے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا، اس نے مجھے دور سے آتا دیکھ کر آواز ماری اور میں اس کی حالت دیکھ کر ٹھہرنے پر مجبور ہوگیا، وہ گھسٹتا ہوا بائیک کے قریب آیا اور میرے ساتھ پیچھے بیٹھ گیا، میں نے اس سے پوچھا" آپ کی ٹانگوں کو کیا ہوا ہے؟ آپ کا جسم بھی انتہائی لاغر ہے؟ " وہ ڈوبی ہوئی آواز میں بولا" میں پولیو وائرس کا شکار ہوں " میں نے کہا "کیا آپ نے پولیوں سے بچاؤ قطرے نہیں پئے تھے" وہ بولا "نہیں، ہمارے گھر میں قطرے پلانے والے آئے بھی تھے لیکن میرے والدین نے ڈس انفارمیشن کی بنیاد پر مجھے قطروں سے محروم رکھا، وہ سمجھتے تھے یہ لوگ ہمیں قطروں کے نام پر گمراہ کررہے ہیں چناں چہ انہوں نے قطرے پلانے والوں کو صاف صاف انکار کردیا اور اس ایک فیصلے کی بنیاد پر میں اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج ہوگیا"۔
میں یہاں پر پولیو وائرس کے بارے میں عرض کرتا چلوں " یہ وائرس ڈائریکٹ ہمارے اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور ٹانگوں کے ساتھ ساتھ جسم کے دوسرے اہم اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے اس کا کیوں کہ کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا لہذا یہ متاثرہ شخص کو عمر بھر کیلئے معذور بنادیتا ہے" پولیو کوئی نئی بیماری نہیں ہے، مصر سے برآمد ہونے والی ایسی پینٹنگز بھی ہیں جن میں معذور افراد کو دکھایا گیا ہے جو چھڑی کی مدد سے چلنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کی ٹانگیں انتہائی کمزور ہیں جس سے پتہ چلتا کہ یہ آج کی دریافت نہیں، پولیوں کی پہلی کلینکل تفصیل 1789 میں برطانوی معالج مائیکل انڈرو وڈ نے دی تھی یہ 1736 میں پیدا ہوئے اور شیر خوار بچوں میں فالج کی بیماری کی وضاحت کی، 20 صدی کے اوائل میں پولیو وائرس سب سے زیادہ خطرناک بیماریوں میں سے ایک تھا، یہ آئے روز ہزاروں بچوں کی جانیں لے جاتا تھا، 1955 میں پولیو کی مؤثر ویکسین دریافت ہونے کے بعد اس کی خوفناک شرح میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی، یہ وائرس 1888 تک 125 سے زائد ممالک میں موجود تھا، ویکسین دریافت ہونے کے بعد 2000 تک یہ افریقہ کے ممالک، انڈیا، پاکستان اور افغانستان میں موجود تھا، 2012 تک انڈیا کے ساتھ ساتھ افریقہ کے بہت سارے ممالک پولیو فری ہوگئے اور 2015 تک افریقہ مکمل طور پر پولیو سے آزاد ہوگیا مگر پوری دنیا کو بیوقوف سمجھنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یہ لوگ آج تک پولیو سے جان نہیں چھڑا سکے، پوری دنیا میں اب پاکستان اور افغانستان بچا ہے جہاں آج بھی پولیو وائرس موجود ہے۔
ہم نے پولیو سے بچاؤ مہم کا آغاز 1974 میں کیا اور بیس سال بعد یعنی 1994 میں اس پر سنجیدگی سے کام کرنا شروع کیا، اس سنجیدگی کا فائدہ یہ ہوا کہ 2014 میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ کیسز ہمارے ہاں رپورٹ ہوئے جبکہ گزشتہ سال بھی 84 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، پولیو وائرس کا شکار ہونے والے یہ بچے کیسی زندگی گزاررہے ہیں؟ ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہیں جانتا(پولیو وائرس زیادہ تر 5سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے جن کو قطرے نہ پلائے گئے ہوں) یہ اپاہج بھی ہیں، معذور بھی اور زندہ ہونے کے باوجود زندگی کا حسن اور زندگی کی رعنائیاں انھیں کبھی نصیب نہیں ہوئیں، میں نے جب اس شخص سے پوچھا" آپ کی زندگی تو بہت مشکل ہوگی؟ " وہ بولا " میں ایک خوفناک زندگی گزار رہا ہوں، میں ایسی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہوں جو میں نے زندگی میں کبھی کی ہی نہیں! وہ غمگین لہجے میں بولا " میرا بہت دل کرتا ہے میں اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہوسکوں، میں بھی عام لوگوں کی طرح چلنا پھرنا چاہتا ہوں، میرا بھی دل کرتا ہے میرے دوست ہوں جن کے ساتھ میں فلم دیکھنے جاؤں، ہم ایک ساتھ کرکٹ کھیلیں، ہم گھومنے پھرنے جائیں لیکن لوگ میری حالت دیکھ کر مجھ سے دور بھاگ جاتے ہیں، یہ میرے قریب آنا بھی گوارا نہیں کرتے، میں 15 سال سے زندگی کی اس وحشت ناکیوں کو سہہ رہا ہوں اور نجانے مجھے کب تک اس اذیت کو برداشت کرنا پڑے گا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ وہ مجھے کہنے لگا" مجھے یہیں پر اتار دو، میں نے بائیک روکی اور اس کو نیچے اتار دیا، تھوڑا سا آگے جانے کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو مجھے اس کی آنکھوں میں وحشتناک اندھیرا دکھائی دیا ایک ایسا اندھیرا جس نے اس کی ساری خواہشوں، زندگی کی ساری امیدوں اور سارے رنگوں کو برباد کرکے رکھ دیا، اس کی زندگی میں اگر کچھ تھا تو صرف حسرتوں کے ڈھیر تھے جو اسے ہر روز ڈستے تھے، یہ حسرتیں چلتے پھرتے ایک نارمل انسان کو دیکھ کر مزید حسرتوں میں بدل جاتی تھیں اور وہ ڈوبی ہوئی آواز میں کہتا"خدایا تو مجھے کس چیز کی سزا دے رہا ہے؟ آخر میرا کیا قصور ہے؟