Hum Itne Shiddat Pasand Kyun Hain
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟
میں عقیدتوں اور جذباتوں میں گندھی باتیں کرنے کا شوقین نہیں اور نہ ہی میں آپ کو اپنی رام لیلا سنا کر پریشان کرنا چاہتا ہوں، میں بغیر کسی وابستگی کے غیر جانبداری کے ساتھ کچھ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کرکہ یہ بات آپ کے ضمیر پر چھوڑ دیتا ہوں کہ آپ ان کی روشنی میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ اس کے ساتھ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں "میں وہ بات کرنے پر مجبور نہیں جو آپ کو پسند ہو اور نہ ہی کوئی مجھے اس بات پر مجبور کر سکتا ہے کہ میں وہ بات لکھنے سے انکار کردوں جو آپ کی طبع نازک پر گراں گزرے، وہ چاہے فرد ہو یا پھر معاشرے کی خود ساختہ تعمیر کردہ نام نہاد اقداریں " غیر مسلموں کو لے کر ہم کن خیالات کے حامل اور ان کے بارے میں کس طرح کے جذبات رکھتے ہیں؟ اور پھر ہم لوگ کتنے پاکباز اور کتنے سچے مسلمان ہیں اس چیز کو سمجھنے کے لئے ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانے سے لے کر گولڈن ایج تک کے مسلمانوں کے ساتھ آج کے مسلمانوں کا موازنہ کرلیتے ہیں، آپ سب سے پہلے سینٹ کیتھرائن کی مثال ملاحظہ کیجئے" سینٹ کیتھرائن کوہ طور کے دامن میں عیسائیوں کی عبادت گاہ ہے، اس میں دنیا کی دوسری قدیم ترین لائبریری ہے اور اسی لائبریری میں نبی اکرمؐ سے منسوب ایک خط مبارک بھی موجود ہے، یہ دنیا میں ایسی واحد دستاویز ہے جس پر رسول اللہ کے دست مبارک کا نشان ہے عیسائی اس خط کو نبی اکرمؐ کا "کووننٹ ٹسیٹامنٹ" جبکہ مسلمان "عہد نامہ" کہتے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق خانقاہ سینٹ کیتھرائن کے چند متولی مدینہ آئے، نبی اکرمؐ نے ان کی میزبانی فرمائی، متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیا "ہمیں خطرہ ہے مسلمان جب طاقتور ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے" آپؐ نے جواب دیا "آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے" متولیوں نے عرض کی "ہم لوگ جب بھی کسی سے معاہدہ کرتے ہیں تو ہم وہ لکھ لیتے ہیں، آپ بھی ہمیں اپنا عہد تحریر فرما کر عنایت کر دیں تاکہ ہم مستقبل میں آپ کے امتیوں کو آپؐ کی یہ تحریر دکھا کر امان حاصل کر سکیں " آپؐ نے تحریر لکھوائی، تصدیق کیلئے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہدنامہ ان کے حوالے کر دیا وہ لوگ واپس آئے اور یہ معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا، مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب بھی مصر فتح کیا اور یہ سینا اور کوہ طور تک پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آگئے، فاتحین نے عہد نامے کو بوسا دیا، خانقاہ اور مصر کے عیسائیوں کو پناہ دی اور واپس لوٹ گئے، وہ عہد نامہ کیا تھا، میں اس کا ترجمہ آپ کی نذر کرتا ہوں ۔
"یہ خط رسول اللہ ﷺ ابن عبداللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے جنہیں اللہ کی طرف سے مخلوق پر نمائندہ بنا کر بھیجا گیا تاکہ خدا کی طرف کوئی حجت قائم نہ ہو، بے شک اللہ قادر مطلق اور دانا ہے، یہ خط اسلام میں داخل ہونے والوں کیلئے ہے، یہ معاہدہ ہمارے اوردورو نزدیک، عربی اور عجمی، شناسا اور اجنبی، عیسائیوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکاروں کے درمیان ہے، یہ خط ایک حلف نامہ ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ کفر کرے گا، وہ اس حکم سے روگردانی کا راستہ اختیار کرے گا، معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا خدا اور اس کے حکم کا نافرمان ہو گا، اس (خط) حکم کی نافرمانی کرنے والا بادشاہ یا عام آدمی خدا کے قہر کا حق دار ہوگا، جب کبھی عیسائی عبادت گزار اور راہب ایک جگہ جمع ہوں، چاہے وہ کوئی پہاڑ ہو یا وادی، غار ہو یا کھلا میدان، کلیساء ہو یا گھر میں تعمیر شدہ عبادت گاہ ہو تو بے شک ہم (مسلمان) ان کی حفاظت کیلئے ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے، میں، میرے دوست اور میرے پیروکار ان لوگوں کی جائیدادوں اور ان کی رسوم کی حفاظت کریں گے، یہ (عیسائی) میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں، ان پر ہر طرح کا جزیہ ساقط ہے جو دوسرے ادا کرتے ہیں، انہیں کسی طرح مجبور، خوفزدہ، پریشان یا دباؤ میں نہیں لایا جائے گا، ان کے قاضی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، ان کے راہب اپنے مذہبی احکام اور اپنی رہبانیت کے مقامات میں آزاد ہیں، کسی کو حق نہیں یہ ان کو لوٹے، ان کی عبادت گاہوں اور کلیساؤں کو تباہ کرے اور ان (عمارتوں) میں موجود اشیاء کو اسلام کے گھر میں لائے، جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے حلف کی خلاف ورزی کرے گا، ان کے قاضی، راہب اور عبادت گاہوں کے رکھوالوں پر بھی جزیہ نہیں ہے، ان سے کسی قسم کا جرمانہ یا ناجائز ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، بے شک میں ان سے وعدے کی پاسداری کروں گا، چاہے یہ زمین میں ہیں یا سمندر میں، مشرق میں ہیں یا مغرب میں، شمال میں ہیں یا جنوب میں، یہ میری حفاظت میں ہیں، ہم اپنے مذہبی خدا کی عبادت میں زندگی وقف کرنے والوں (راہبوں) اور اپنی مقدس زمینوں کو زرخیز کرنے والوں (چرچ کے زیر انتظام زمینوں) سے کوئی ٹیکس یا آمدن کا دسواں حصہ نہیں لیں گے، کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کے معاملات میں دخل دے یا ان کے خلاف کوئی اقدام کرے، ان کے زمیندار، تاجر اور امیر لوگوں سے لیا جانے والا ٹیکس 12 درہم سے زائد نہیں ہو گا، ان کو کسی طرح کے سفر (نقل مکانی) یا جنگ میں حصہ لینے (فوجی بھرتی) پر بھی مجبور نہیں کیا جائے گا، کوئی ان سے جھگڑا یا بحث نہ کرے، ان سے قرآن کے احکام کے سوا کوئی بات نہ کرو اور اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر ایسے طریقے سے جو عمدہ ہو" (سورۃ العنکبوت آیت 46) پس یہ مسلمانوں کی جانب سے ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ ہیں، چاہے یہ عبادت گاہ میں ہیں یا کہیں اور، کسی عیسائی عورت کی مسلمان سے اس کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہوسکتی، اس کو اس کے کلیساء جانے سے نہیں روکا جاسکتا، ان کے کلیساؤں کا احترام ہو گا، ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اور انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاسداری کرے" عہد نامے کے نیچے نبی اکرم ؐ کے دست مبارک کا نقش ہے، یہ نقش رسول اللہ ﷺ کے دستخط کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسلمانوں نے 1400 سال کی تاریخ میں اس عہد نامے کا احترام کیا، ہم نے ان برسوں میں کسی چرچ پر حملہ کیا، کوئی راہب قتل کیا اور نہ ہی کسی کلیساء کی زمین پر قبضہ کیا، حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد کلیساء میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا، اموی خلفاء نے دمشق میں جامع امیہ بنانے کا فیصلہ کیا تو عیسائیوں سے چرچ کی زمین باقاعدہ خریدی بھی گئی اور انھیں پورے دمشق میں جتنے اور جہاں مرضی چرچز بنانے کی اجازت بھی دی، سعودی عرب، عراق، مصر، ترکی، فلسطین، ایران اور سینٹرل ایشیا میں آج بھی دو ہزار سال پرانے چرچ موجود ہیں، یہ چرچ ان ادوار میں بھی سلامت رہے جب مسلمان مسلمان کے گلے کاٹ ریے تھے، جب مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان قتل ہوجاتے تھے اور امیر تیمور جیسے لوگ اپنے اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے۔
یہ تھا عہد نامہ اور یہ تھے ہمارے رسول اور وہ سارے حکمران جو آج تک اس مبارک عہد نامہ کی پابندی کرتے آئے، یہ لوگ حضور ﷺ کے اس حکم کو پڑھتے ہی فورا عیسائیوں سے معافیاں مانگ لیتے تھے، میں آج بھی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اگر کسی اور مذہب کا وفد بھی آپ ﷺ سے امان کی گزارش کرتا تو آپ اس کے لئے بھی یہی عہد نامہ جاری کرتے اور اپنے ماننے والوں سے اس چیز کی سخت تلقین کرتے کہ کوئی بھی انہیں بلاوجہ نقصان نہ پہنچائے تاہم آپ بدقسمتی ملاحظہ کریں مملکت خدادا میں نہ ہندو محفوظ ہیں نہ عیسائی اور نہ ہی دیگر لوگ، کراچی میں آج سے چند دہائیاں پہلے یہودیوں کے خاندان آباد تھے مگر یہ لوگ ہماری انتہاء پسندی کی وجہ سے اسرائیل اور یوریی ممالک میں ہجرت کرگئے جبکہ اقلیتیں یہاں پر کس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آپ یہ اگلے پارٹ میں ملاحظہ کریں۔