Hum Itne Shiddat Pasand Kyun Hain (4)
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ (4)
سب اس چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہے اور نہ ہی معیاری، یہ انسانی شعور کو بیدار کرنے کے بجائے اسے دائروں کا مسافر بنادیتا ہے، اگر ہم "شدت پسندی" اور قوم کی "مسخ شدہ ذہنیت" کی وجوہات تلاش کریں تو اس کی سب بڑی وجہ غیر معیاری، ناپائیدار اور پست ترین تعلیمی نظام ہے، آپ ذہنی عفریت اور جنونیت کی جتنی مرضی وجوہات بیان کردیں آپ کو سب کی کڑیاں تعلیم سے ملتی نظر آئیں گی، اگر آپ قومی و مذہبی جنونیت اور پاگل پن کی حدوں کو چھوتی تعصب پسندی کی وجوہات تلاش کرنا چاہتے ہیں تو آپ فقط ہمارے تعلیمی نظام کے حوالے سے دنیا جہاں کی رپورٹوں کا مطالعہ کرلیجئے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی(USCIRF) کی پاکستان کے سرکاری اسکولوں اور مدارس کے بارے میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق: "تمام کتب جو بچوں کے زیر استعمال ہوتی ہیں ان میں اکثر اسلامی رجحان ہوتا ہے، اساتذہ کے پاس مذہبی اقلیتیوں کے بارے میں محدود آگاہی ہوتی ہے چناں چہ وہ ان کو ملکی شہری تک تسلیم نہیں کرتے جبکہ یہ لوگ یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوں کی منظم منفی تصویر کشی سے عدم برداشت، تعصب پسندی اور مذہبی منافرت کو بچوں میں منتقل کرتے ہیں "۔ 2019 میں پورپین پارلیمنٹ کے اراکین نے مذہبی اقلیتیوں کے بارے میں مرتب کردہ رپورٹ میں اس چیز کا انکشاف کیا: "پاکستانی سکولوں کا نصاب زیادہ تر جہاد اور شہادت جیسے فلسفوں پر مشتمل ہوتا ہے، نظریہ پاکستان کی آڑ میں بچوں میں ہندوؤں مخالف جذبات پیدا کرکہ نفرت کی فضاء قائم کی جاتی ہے جبکہ منفی تصویر کشی کے ساتھ عدم برداشت جیسے رویوں کو بڑھاوا دیا جاتا ہے" اور مجھے سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب رپورٹ میں یہ کہا گیا "یہ لوگ اسلامی تہذیب کا پرچار مذہبی منافرت یعنی دوسری مذہبی اقلیتیوں کو کمتر اور گمراہ قرار دے کر کرتے ہیں "۔
میں نے ایک دن سردار کامران صاحب سے "مذہبی شدت پسندی کی وجوہات" پر چند سوالات کیے تھے، میں نے ان سے زیادہ باشعور، روشن دماغ اور ذہنی طور پر بالغ انسان نہیں دیکھا، سردار صاحب سوال کو سب سے بڑا ہتھیار اور "حقیقی علم" کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ اکثر مجھے بھی نصیحت کرتے ہیں " اصل علم وہ ہے جس کو تم خود تلاش کرو، جب تم کسی چیز یا موضوع پر جذباتیت اور تعصب سے پاک سوالوں کی بوچھاڑ کرتے ہو تو ان سے برآمد ہونے والا نتیجہ "اصل علم" ہوتا ہے، یہ وہ روشنی ہوتی ہے جو تمہارے دل پر اثر کرتی ہے اور اس سے تمہارا سینہ منور ہوجاتا ہے" میں نے ایک دن ان سے عرض کی: " سر شدت پسندی کیا ہے؟ اور یہ کن وجوہات کی بناء پر جنم لیتی ہے؟ " انہوں نے فرمایا: "اپنی رائے کو اس قدر درست سمجھ لینا کہ دوسرے سرے سے ہی غلط نظر آئیں یہ رویہ تشدد پسندی کہلاتا ہے"۔
میں نے وضاحت کی گزارش کی تو انہوں نے فرمایا: " آپ مذاہب کو دیکھ لیجئے، ہر مذہب/فرقہ خود کو اعلیٰ ترین کہہ کے نہ صرف تعارف کرواتا ہے بلکہ دوسرے مذاہب اور فرقوں کو جہنم کی پرچی بھی دیتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں میں متشدانہ رویہ جنم لیتے ہیں " میں سردار صاحب کی ان باتوں کا تجزیہ کرتا ہوں تو یہ مجھے بلکل درست معلوم ہوتی ہیں، آپ نے ہی کہا تھا: "ہمارے مدرسوں میں مذہب نہیں مسلک پڑھایا جاتا ہے" اور بدقسمتی سے واقعی مذہبی تاریخ تشدد پسندی کی کھلی کتاب ہے، یورپ نے تشدد پسندی کی خونریزی کا مشاہدہ کیا ہے، سائنس اور سائنسدان چرچز کے تعصب کا نشانہ بنتے رہے ہیں، ہمیں دنیا کا ہر مذہب خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط کہتا ملتا ہے، یہ سلسلہ یہی نہیں رکتا ایک کیتھولک عیسائی اور ایک پرونسٹنٹ کے درمیان بھی یہی جنگ دکھائی دے گی، مسلمان مسلمانوں سے الجھ رہے ہیں، شیعہ سنی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور سنی شیعہ کا گریبان پھاڑنے کے درپہ ہیں! یہ کیا ہے؟ یہ خود کو صحیح اور دوسروں کو گمراہ قرار دینے کا نتیجہ ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا امن کا بھونپوں بجانے کے باوجود مذہبی لوگ ہی سب سے زیادہ شدت پسند کیوں ہوتے ہیں؟ اور پھر امن کی بات کرنے کے باوجود بھی مذہب اپنے حامیوں کو پرامن کیوں نہیں بنا پاتا! بات واضح ہے وہ پیغام جس میں دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے کی گنجائش تو دور انھیں سرے سے ہی گمراہ اور جہنمی تسلیم کرلیا جائے وہاں "مذہبی شدت پسندی" کے سوا کیا جنم لے گا؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا مذہب بذات خود شدت پسندی کا مرکز ومحور ہے؟ "نہیں " دیکھیں مذہب شدت پسندی کا موجب نہیں ہے بلکہ وہ مبلغین جنہوں نے خود کو مذہب کا سب سے بڑا ٹھیکیدار سمجھ لیا ہے وہ شدت پسندی کا باعث بنتے ہیں، رسالت ماب کی تبلیغ کا آغاز بلکہ ساری عمر کا دورانیہ کسی بھی صورت شدت پسندی پر مبنئ نہ تھا، آپ ﷺ نے تو عیسائیوں اور یہودیوں کو حقوق دیے، ان کے خداؤں کو جھوٹا خدا نہ کہنے کی تلقین کی، آپ نے یہودیوں کے لئے مسجد نبوی میں جگہ مخصوص کی۔
قرآن نے واضح طور پر ارشاد فرمایا" ان سے کہہ دیجئے: تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین" لیکن آپ ﷺ ہمیشہ شائستہ اور نرم گوئی سے ان تک اپنا پیغام پہنچاتے رہے، حضور کے زمانے میں میں فقط دفاع کی خاطر جہاد کا سہارا لیا گیا، آپ نے تو اپنے دشمنوں بلکہ اپنے چاچاؤں کو قتل کرنے والوں کو معاف تک کردیا تھا پھر بھلا مذہب بذات خود عصبیت پر مبنی کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن یقینا اپنا پیغام ماننے والے کی فیور کرتا نظر آتا ہے اور کیوں نہ کرے؟ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ دنیا کی ساری اقوام گمراہ ہیں اور ان کو تلوار کے زور پر راہ راست پر لانا پاکستانی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے تو جناب یہ آپ کی، آپ کے مذہبی پیشواؤں اور مبلغوں کی کم ذہنی اور کج فہمی ہے۔
مذہب تو تھا اخلاقیات ٹھیک کرنے اور انسانی زندگی کو باوقار بنانے کے لئے لیکن ملاؤں نے ہر چیز کو مذہبی سانچے میں ڈال دیا، پوری قوم کو مذہبی عینک لگا کر ہرچیز کا تجزیہ کرنے کی بصیرت عطا فرمادی چناں چہ آج ہر طرف ہاکار مچی ہوئی ہے ہم جدید زمانے میں رہنے کے باوجود اپنا سلیبس مذہبی بنیادوں پر تشکیل دیتے ہیں، ہماری پالیسیاں مذہبی رنگ سے اٹی ہوتی ہے، ہم نے سائنس کو مذہبی چولہ پہنادیا ہے جبکہ سائنس تو ہے ہی بے خوف اور بلادھڑک سوالات اٹھانے کا نام، سائنس کی دنیا الگ ہے یہ مذہب، رنگ، نسل اور قومیت سے ماوراء ہے اور ہماری سترہ سترہ عرب یونیورسٹیوں کے سربران اس چیز میں الجھ جاتے ہیں کہ سائنس مذہبی ہے، یہ معتزلہ رجحانات پیدا کرتی ہے، اس سے ایمان وایقان کو خطرہ ہے چناں چہ دنیا جہاں کے مسلمان سائنسی میدانوں میں مارکھارہے ہیں، سائنس پر مذہبی غلبہ نے ہمیں دنیا کا محتاج بنادیا ہے۔
تعلیمی نظام جس نے عصبیت اور مسخ ذہنیت کا مداوا کرنا تھا وہ خود اس میں گھٹنوں تک دھنسا ہوا ہے لہذا پوری قوم نفرت میں ڈوبی ہوئی ہے اور نسل در نسل نفرتوں کا اہتمام جاری وساری ہے حالانکہ تعلیم کا کام انسان کو ذہنی طور پر بیدار کرکہ تجسس پر ابھارنا ہوتا ہے، مذہب حقیقت نہیں ہوتی بلکہ حق وہ ہوتا ہے جسے آپ زندگی بھر دشوارگزار پگڈنڈیوں پر چل کر تلاش کرتے ہیں اس کے لئے آپ مذہب سے بھی رجوع کرتے ہیں، آپ کو سائنس کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے، آپ کو روحانیت اور فلسفے کی خاک بھی چھاننی پڑتی ہے، زندگی کے پیٹ میں اتر کر حقائق تلاش کرنے پڑتے ہیں مگر ہمارا نظام گول کاغذ کے سوا کچھ نہیں بانٹ رہا اور ہر روز بےعمل قوم کے مجاہدین غیر مسلموں اور اقلیتیوں کو ڈنڈے کے زور پر کلمہ شہادت پڑھانے نکلے ہوتے ہیں۔