Hum Itne Shiddat Pasand Kyun Hain (2)
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ (2)
یہ صرف رسول اکرم ﷺ کا عہد نامہ ہی نہیں تھا جس میں عیسائیوں کے ساتھ حسن وسلوک کی تنبیہ کی گئی تھی بلکہ قرآن کریم بھی واضح طور پر اپنے پیروکاروں کو تمام مذاہب اور برادریوں کے لوگوں کو برداشت کرنے اور ان کے ساتھ حسن وسلوک سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے یہی وجہ تھی کہ سلطنت عثمانیہ کے زیر تحت یہودی کمیونٹیز خود کو محفوظ تصور کرتی تھیں اور عیسائیوں کی طرح اپنے اپنے مذہب پرعمل پیرا رہتی تھیں ۔یتزک سرفاتی جو جرمنی میں پیدا ہوا اور بعد میں ربی بن گیا تھا اس نے ان دنوں ایک خط لکھا اور یورپی یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ میں آباد ہونے کی دعوت دی، اس نے یورپی یہودیوں سے پوچھا "کیا آپ کے لیے عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے نیچے رہنا بہتر نہ ہوگا؟ "، سلطان بایزید دوم (1481–1512) نے اسپین اور پرتگال سے نکالے گئے یہودیوں کو باضابطہ دعوت نامہ جاری کیے جس سے یہودی امیگریشن کی لہر دوڑ گئی، مائیکل والزز نے عثمانی مسلمانوں کے بارے میں لکھا تھا "سلطنت کا قائم کردہ مذہب اسلام تھا لیکن تین دیگر مذہبی برادریوں یونانی آرتھوڈوکس، آرمینیائی آرتھوڈوکس اور یہودیوں کو خود مختار تنظیمیں بنانے کی اجازت تھی اور یہ تینوں آپس میں برابر تھے" آپ کمال دیکھیں "اس وقت کے مسلمانوں نے نہ صرف ہر قسم کے حالات میں عہد نامہ کی پاسداری کی بلکہ کھلے دل سے غیر مسلموں کو اپنے معاشروں میں بھی جگہ دی جبکہ ہم لوگ جو خود کو مسلمان اور سچے مومن ثابت کرتے نہیں تھکتے اور پھر ہمیں یہ بھی ثابت کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے، آپ اب ایک نظر ان اعداد وشمار پر دوڑالیجئے کہ اس مسلم معاشرے میں غیر مسلموں اقلیتوں کو کن خوفناک حالات کا سامنا ہے۔
2005 میں ایک ہجوم نے فیصل آباد میں گرجا گھروں اور عیسائی اسکولوں کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے عیسائیوں کو گھروں سے بھاگنا پڑا، گوجرہ میں ایک مشتعل ہجوم اسلام کے نام پر تقریبا 40 گھروں اور ایک چرچ کو آگ لگادیتا ہے اور نتیجتا آٹھ افراد زندہ جل کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، 22 ستمبر 2013 کو پشاور میں آل سینٹس چرچ میں ایک جڑواں خودکش بم حملہ ہوتا ہے اور 127 افراد ہلاک جبکہ 250 سے زائد زخمی ہوجاتے ہیں، 15 مارچ 2015 کو لاہور کے یوحنا آباد قصبے میں اتوار کے روز رومن کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ میں دو زاردار دھماکے ہوتے ہیں جس میں 15 افراد ہلاک اور ستر زخمی ہوجاتے ہیں، کوئٹہ میں ایک چرچ پر بم دھماکہ ہوتا ہے اور اسلامک اسٹیٹ گروپ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 نومبر 2015 سے 31 اکتوبر 2016 کے 12 ماہ کے عرصے کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ عیسائی ہلاک ہوئے، ملک میں 76 عیسائی مارے گئے جبکہ پاکستان آج بھی چرچ پر ہونے والے حملوں کی فہرست میں سرفہرست ہے، دنیا بھر میں 1329 گرجا گھروں پر ہونے والے حملوں میں 600 حملوں کے حصہ ذمہ دار ہم ہیں ۔
ہمارے ہاں ہندو مخالف جذبات، ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہندوؤں پر ظلم معمول کی بات ہے، سونوں اور چمپا جیسے والدین کی سینکڑوں بچیاں زبردستی مسلمان بنادی جاتی ہیں، 2006 میں لاہور میں ایک ہندو مندر کو تجارتی عمارت تعمیر کرنے کے چکر میں تباہ کر دیا جاتا ہے اور پراپرٹی ڈویلپرز اس جہاد کو ڈان نیوز کے نامہ نگاروں کے سامنے کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں، جنوری 2017 میں پاکستان کے ضلع ہری پور میں ایک ہندو مندر کو مسمار کر دیا گیا جبکہ جولائی 2010 میں کراچی کے مراد میمن گوٹھ محلے میں تقریبا 60 مستقل رہائشی ہندوؤں پر 150 غازیان اسلام حملہ کردیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ 400 ہندو خاندانوں کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی بھی دے دی جاتی ہے، جنوری 2014 میں پشاور میں ایک مندر پر حملے میں گارڈ کو گولی مار کر جہنم واصل کردیا جاتا ہے اور اسی سال 15 مارچ 2014 کو ایک ہندو نوجوان لڑکے پر قرآن کے نسخے کی بے حرمتی کا الزام(الزام لگتا ہے ثابت نہیں ہوتا) لگا کر ایک ہندو مندر اور ایک دھرم شالہ کو جلا دیا جاتا ہے، مارچ 2014 ایکسپریس ٹریبیون نے آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ (پی ایچ آر ایم) کے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ "پاکستان میں 428 مندروں میں سے قریبا 20 مندر اپنی اصلی حالت میں موجود جبکہ باقی مندروں کو کسی نا کسی اور استعمال کے لئے بدل دیا گیا ہے گویا آپ منافقت دیکھیں پاکستان میں بیٹھ کر انڈین مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی بات کرنے والوں نے اپنے ہی گھر میں %95 ہندو مندروں کو مکمل طور پر تبدیل کردیا" بابری مسجد کے انہدام کے بعد پاکستانی ہندوؤں کو بدترین فسادات کا سامنا کرنا پڑا تھا، ایک ہجوم نے کراچی میں پانچ ہندو مندروں پر حملہ کیا اور صوبہ سندھ کے قصبوں میں 25 مندروں کو آگ لگا دی، سکھر میں ہندوؤں کی ملکیتی دکانوں پر بھی حملے کیے گئے، کوئٹہ میں ہندوؤں کے گھروں اور مندروں کو مسمار کردیا گیا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں صرف ایک ہزار کے قریب ہندو خاندان بھارت بھاگ گئے، مئی 2014 میں رمیش کمار وانکوانی نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ ہر سال تقریبا پانچ ہزار ہندو پاکستان سے ہندوستان ہجرت کر رہے ہیں ۔
چلیں یہ تو تھے غیر مسلم مگر مسلمانوں کا آپس میں حال دیکھ لیں، ایک فرقہ کا مولوی دوسرے فرقہ کے مولوی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، یہ اپنے فرقہ سے باہر شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیتے ہیں، ہر کوئی اپنا اپنا دین اور اپنے اپنے عقائد بیچ رہا ہے، لوگ اس مبارک کام کی خاطر گردنیں اکھاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے، 2012 میں جنداللہ کے عسکریت پسند بسوں میں سوار 18 شیعہ حضرات کا قتل عام کردیتے ہیں، اسی سال 2012 میں شیعہ مخالف عسکریت پسند گروپ لشکر جھنگوی کا بانی ملک اسحاق شیعوں کو "زمین کا سب سے بڑا کافر" قرار دے دیتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کردیتا ہے کہ انہیں "ان کے عقائد کی بنیاد پر غیر مسلم قرار دیا جائے"۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2003 سے مئی 2016 کے درمیان پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے 446 واقعات ہوئے جن میں 2558 سے زائد افراد ہلاک اور 4518 سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔
آپ تشدد پسندی کی انتہاء دیکھیں " یہ لوگ کبھی ذہنی طور پر معذور گیارہ سالہ رمشا میسح پر قرآنی صفحات جلانے کا الزام لگادیتے ہیں اور کبھی جنید جمشید پر توہین رسالت کا الزام عائد کردیا جاتا ہے، یہ لوگ رحیم یارخان میں بھی چھوٹے سے بچے کو نہیں بخشتے اور مندر پر دھاوا بول دیتے ہیں " مجھے سمجھ نہیں آتی آپ کس اسلام کے ماننے والے ہیں؟ کیا اسلام امن وآتشی کا پیغام نہیں دیتا؟ کیا اسلام محبت اور انسانیت کا درس نہیں دیتا؟ اگر ہاں! تو پھر آپ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ آپ جہاں اقلیت میں ہوتے ہیں آپ کو وہاں امن پسندی یاد آجاتی ہے اور جہاں آپ اکثریت میں ہوتے ہیں وہاں آپ کو اپنے چہروں پر ملی کالک تک نظر نہیں آتی، آپ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں "آپ نے بھی کسی زمانے میں مسیحی بادشاہ(نجاشی) سے پناہ لینے کی درخواست کی تھی اور اس نے آپ کا پیغام سن کر آپ کو پناہ دے بھی دی تھی مگر آج آپ سے چرچز برداشت نہیں ہوتے، آپ اسلام کے نام پر مندروں کو جلادیتے ہیں، یہ یاد رکھیں " مندر کے جلنے سے ایک مندر نہیں جلتا بلکہ ایک مذہب کے خدا کا گھر جلتا ہے، کمزور اقلیتی برادری کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور ہزاروں سال پرانے کلچر کے احساسات کو روندا جاتا ہے" (جاری ہے)