Haqiqi Islam Ki Talash
حقیقی اسلام کی تلاش
ہم سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں ،کہ یہودی، عیسائی، نصرانئ، ہندو اور زرتشتی سب لوگوں سے نفرت کی جانی چاہیے؟ یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے عیسائی کیتھولک، عیسائی پروسٹنٹ، وہابی، سنی بریلوی، شیعہ، دیوبندی تک دراز ہوتا چلا جاتا ہے، کسی کو صرف اس بنیاد پر قابل نفرت سمجھنا کہ اس نے اسلام کو قبول نہیں کیا ،یا ہمارے مسلک سے تعلق نہیں رکھتا، عجب تر اور پھر اسی کی بنیاد پر جس کو دل چاہے ،کافر کہ دینا اور جس کی چاہے تضحیک کرنا اور عقیدت کی ترنگ میں گردن اتاردینا کیا یہ عمل عین اسلامی ہے؟
کیونکہ میری دانست میں اسلام مکمل طور پر تہذیب، شائستگی، نرم گوئی، شفقت اور مروت پر مبنی ہے جو اپنے سچے پیروکاروں سے ہر حالت ہر صورت میں ان رویوں کو اپنانے کا متمنئ ہے، اسلامی تعلیمات میں نرمی، شائستگی اور تہذیب کو بہرکیف نہ چھوڑنے کے واضح اور صریح پیغامات موجود ہیں لہذا نفرت کرنے والا کیونکر مسلمان ہوسکتا ہے؟ وہ تو بذات خود اسلامی اصولوں کے مخالف؟ لیکن اس کے باوجود اگر نفرت کا آغاز کرنا ہی مقصود اور مقصد حیات ہے، تو انصافا یہ کام خود اپنی گردن سے ہوتے ہوئے کافروں تک کیوں نہ لے جایا جائے؟
کیونکہ اسلام تو مسلمانوں سے "انصاف" کا تقاضہ بھی کرتا ہے ،اور اگر آپ منصفانہ روش اختیار کرتے ہوئے نفرت انگیزی کا اظہار کریں گے تو خوب تروگرنہ قرآن میں "منافقین" کے لئے اچھے الفاظ میں ذکر نہیں کیا گیا، اور یہ بات ذہن نشین کرلیجئے "دوغلے پن اور دوہرے معیارات رکھنے والے شخص کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ چاہے منہ زبانی یا وراثتی طور پر مسلمان ہی کیوں نہ ہو،اسلام ایک اعلی اخلاقی پاکیزگی اور ظاہری وباطنی ہم آہنگی کا نام ہے۔
اور پھر آپﷺنے بھی تو مکہ کے اندر یہودیوں کے لئے عبادت کی جگہ مخصوص کی، ان سے بذات خود کاروبار اور لین دین کیا، عیسائیوں اور غیر مسلموں سے ہمیشہ محبت سے پیش آتے رہے، تو کیا ایک سچے پیروکار پر یہ فرض نہیں کہ "وہ اپنے نبی کے بتائے ہوئے اسوہ حسنہ کی تعمیل کرے" اس کے بتائے ہوئے رستہ کو اپنائے؟ جہاں ہم ایک کافر سے اس وجہ سے نفرت کرتے ہیں، کہ وہ اسلامی تعلیمات کا سرے سے ہی منکر ہے، وہاں ہم اسلام کا چوغہ پہن کر حضور ﷺ اور خدائے برتر کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے کو قابل نفرت قرار دیں گے۔
انصاف بہرحال اس رویہ کا متقاضی اور اخلاقیات کا معیار تو پوری انسانیت کے لئے ایک ہے، لہذا انصاف تو فقط انصاف ہے، وہ چاہے مسلمان کے ساتھ ہو یا پھر غیر مسلم سے، کیا کہیں ہم مسلمان آپ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف تو نہیں جارہے؟ کیونکہ یہ بات تو طے ہے محمد الرسول اللہ اور نفرت اکھٹے نہیں ہوسکتے، رحمةللعالمین اور غضب و قہر یکجا نہیں ہوسکتے، حضور تو سراپا رحمت تھے، وہ تو کائنات کے لئے رحمت تھے، آپ تو پیار ہی پیار، محبت ہی محبت اور الفتوں چاہتوں کے عظیم الشان پیکر تھے ،مگر ہم مسلمان کیونکر غیر مسلموں سے نفرت کرنے لگے۔
کہیں ہم نے حضور کے بتائے ہوئے رستہ کے برعکس رستہ تو اختیار نہیں کرلیا؟ جس پر چلنے والا محبت اور عقیدت میں محبوب کی باتوں پر عمل کرنا ہی ترک کردیتا ہے، کیا ایک کافر اس فکری و عملی تضاد کو دیکھ کر یہ نہیں کہے گا "یہ کیسا محبوب جو محبوب کی باتوں پر ایقان و ایمان کی گہرائیوں سے عمل کرنے کے بجائے اس کی مخالفت پر آمادہ، جو جان نثار کرنے کو تو تیار لیکن اسی محبوب کی سنت محبت، خلوص اور مروت ولحاظ سے دور دور اور بہت ہی دور نکلتا چلا جارہا ہے۔
ہمیں بہرحال اس پر سنجیدگی سے تفکر کرنا چاہیے تاکہ اسلامی تعلیمات اپنی پوری تابناکی کے ساتھ ہم پر واضح ہوسکیں، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاتھ ان گریبانوں کی طرف بھی جانے چاہییں جنھوں نے ہمیں محبت سکھانے کے بجائے نفرت کی اندھیر نگری میں دھکیل دیا ۔کیونکہ انھوں نے بس ہمیں نفرت ہی کرنا نہیں سکھایا بلکہ ہمارے حضور کے نام پر ہمیں آج تک گمراہ کرتے رہے ہیں ،اور یہ جرم نفرت سکھانے سے کہیں سنگین اور خوفناک جرم ہے جو ہر صورت قابل مواخذہ ہے ،کیونکہ اسی وجہ سے آج محبت کا دین نفرت کا کارخانہ بنا ہوا ہے۔ جس کی فضاؤں میں گھٹن، دہشت، خوف اور دوسروں کو انسان سمجھنے کے بجائے نفرتیں ہی نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں، اور پوری دنیا ہمیں سہمی سہمی نظروں سے دیکھتی اور دہشت گرد سمجھتی ہے۔