Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Farooq/
  4. Enjoy

Enjoy

انجوائے

پورا استنبول سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے، گلیاں سنسان تھیں، میں نے دائیں بائیں دیکھا اور سڑک کی طرف چل پڑا، سرد اور تند ہوا کا جھونکا میرے بدن سے ٹکرایا اور لانگ کوٹ کو چیرتے ہوئے میری ہڈیوں میں سرایت کر گیا، میں نے تھری پیس کے اوپر لانگ کوٹ پہنا ہوا تھا، میری گردن پر مفلر بھی لپٹا ہوا تھا، میرے پاؤں میں چمڑے کے شوز تھے، مگر اس کے باوجود میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، میں نے فورا بس پکڑی اور "بیی اوغلو" کے لئے نکل پڑا۔

"بیی اوغلو" کا شمار استنبول کے متمول ترین علاقوں میں ہوتا ہے، استنبول کے زیادہ تر تاریخی مقامات بھی اسی علاقے میں ہیں، استنبول آنے والے زیادہ تر سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں، میرے ایک دوست جرمنی سے پاکستان تشریف لے جا رہے تھے، انہوں نے استنبول میں ایک دن کا قیام کرنا تھا، انہوں نے مجھے کال کی اور پورا دن میرے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا، میں "بیی اوغلو" پہنچا تو وہ پہلے سے میرا انتظار کر رہے تھے، ہم نے گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا، میں سردی سے کپکپا رہا تھا چنانچہ میں نے ریستوران چل کر "سوپ" پینے کی درخواست کر دی، ہم ریستوران پہنچے اور گرم گرم سوپ کا آرڈر دے دیا، سوپ آتے ہی میں نے اسے اپنے گلے میں انڈیلنا شروع کر دیا، میں تیزی تیزی سے سوپ کے چمچ چڑھا رہا تھا، مگر میرے دوست سوپ کی طرف دیکھ رہے تھے، وہ چند لمحوں بعد سوپ پر جھکے، ایک لمبا سانس لیا اور اس کی خوشبو اپنے بدن میں اتار لی، میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آ سکی، انہوں نے دوبارہ اپنی حرکت کو دہرایا، سوپ پر جھکے اور لمبی سانس لی، میں نے سوچا شاید انہیں "سوپ کی خوشبو پسند آئی ہو" انہوں نے چمچ اٹھایا، سوپ سے بھرا اور اپنے منہ میں داخل کر دیا، یہ سوپ چند لمحے اپنے منہ میں رکھتے اور اس کے بعد حلق سے نیچے اتار لیتے، انہیں سوپ ختم کرنے میں 15منٹ لگ گئے۔

میں نے ان سے کہا "جو کام میں نے چند منٹوں میں کیا ہے وہی کام کرنے میں آپ کو 15 منٹ لگ گئے ہیں، اگر آپ کھانا بھی اسی سپیڈ سے کھاتے ہیں پھر تو آپ کو کم از کم آدھا گھنٹہ درکار ہوتا ہوگا" وہ مسکرائے اور کہنے لگے "مجھے کھانا کھانے کے لئے کم از کم آدھا گھنٹہ چاہیے ہوتا ہے کھانا کھانے کے لیے دس سے پندرہ منٹ کافی ہوتے ہیں مگر میں کھانا کھاتا نہیں بلکہ اسے "انجوائے" کرتا ہوں، میں نے ان سے پوچھا وہ کیسے؟ انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے "ہم کھانے کو صرف کھانا سمجھتے ہیں، لیکن میں اسے سب سے بڑا سورس آف انجوائے منٹ" سمجھتا ہوں، لوگ کھانے کو نعمت سمجھتے ہیں، لیکن میں اس کی خوشبو اور ذائقے کو بھی نعمت سمجھتا ہوں، مجھے جو بھی کھانا ملتا ہے میں اس کی خوشبو کو اچھی طرح محسوس کرتا ہوں، میں کھانا کھاتے ہوئے دانتوں سے ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی کام لیتا ہوں، دنیا کا کوئی بھی کھانا ذائقے کے بغیر کھانا نہیں ہوتا ہے لہذا میں کھانے کے ذائقے سے پوری طرح حظ اٹھاتا ہوں، میں سمجھتا ہوں "میں آج جو کچھ کھا رہا ہوں وہ مجھے دوبارہ کبھی نصیب نہیں ہوگا، ممکن ہے چیز وہی ہو مگر وہ پہلے جیسے ہو یہ ناممکن ہے" چناں چہ میں اسے پوری طرح انجوائے کرتا ہوں، میں نے یہ فلسفہ کھانوں تک ہی محدود نہیں کر رکھا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں "جس طرح کھانے کا ایک ذائقہ، ایک خوشبو ہوتی ہے اسی طرح زندگی کے ایک ایک لمحے کی بھی اپنی خوشبو اور اپنا ایک ذائقہ ہوتا ہے" میں اس ذائقے اور اس خوشبو کو اچھی طرح انجوائے کرتا ہوں، تم یقین کرو اس سے میری زندگی بے حد خوش گوار ہوگئی ہے، میں دکھوں اور تکلیفوں کا بازو پھیلا کر استقبال کرتا ہوں، میں جب یہ سوچتا ہوں "میں جس تکلیف جس کرب سے آج گزر رہا ہوں، میرا دوبارہ کبھی اس سے پالا نہیں پڑے گا تو وہ تکلیف مجھے تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے، میں پھر سے انجوائے کرنا شروع کر دیتا ہوں، میں اپنی خوشیوں کو بھی اچھی طرح انجوائے کرتا ہوں، خوشی عمر میں غم سے چھوٹی ہوتی ہے مگر میرا یہ فلسفہ خوشی کی عمر کو بڑھا دیتا ہے، میں نے بیٹھے بیٹھے محسوس کیا وہ ان لمحات کو بھی اچھی طرح انجوائے کر رہے ہیں۔

وہ فرمانے لگے "ہم انسان خوشحال ہونے کے لیے پیسہ کماتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں ہماری یہ ضرورت پوری ہوگی تو ہم خوش ہوں گے، ہم نے اپنی خوشیاں "پیسوں " اور "ضرورتوں" سے وابستہ کر رکھی ہیں، انسان تو ساری عمر "ضرورت" اور "پیسے" کا محتاج رہتا ہے پھر بھلا یہ خوشحال کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارا ماضی تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے، مستقبل ایک ایسا کل ہے جس کی امید کی جاسکتی ہے مگر دعویٰ نہیں، آ جا کر ہمارے پاس "لمحہ موجود" بچتا ہے پھر کیوں نا اسے اچھی طرح انجوائے کیا جائے، وہ چاہے زندگی کے دکھ ہوں، خوشی کے چند لمحات ہوں، انسانوں کے اچھے برے رویے ہوں یا پھر کھانوں کے ذائقے، بیی اوغلو کا سوپ ہو یا استنبول کے موسم کی بے رخی، میں اس فلسفے سے بے حد متاثر ہوا، میں نے زندگی کو کبھی بھی اس زاویے سے نہیں دیکھا تھا، مجھے محسوس ہوا "ہم زندگی کی الجھنوں میں اتنا برا پھنس چکے ہیں کہ زندگی جینا ہی بھول چکے ہیں، ہم سب لوگ کھانا کھاتے ہیں، ہم سب کافی اور چائے سے اپنی حلق کو بھی تر کرتے ہیں مگر کتنے لوگ ہیں جو ان سے پوری طرح محظوظ ہوتے ہوں، قدرت نے ہمیں پہاڑ دیے، آبشاریں دیں، اچھے مناظر تخلیق کیے، خوبصورت پھول اگائے، اچھے اچھے کھانوں کا بندوبست کیا، زندگی کی تمام رعنائیاں تخلیق کیں تاکہ ہم خوبصورت زندگی گزار سکیں، ان سب نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکیں مگر ہمیں مصیبتوں کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا، ہم جیتے بھی رو رو کر ہیں، اگر ہم نے جینا ہی ہے تو پھر کیوں نا ہنستے کھیلتے زندگی گزاری جائے، اسے بھرپور طریقے سے انجوائے کیا جائے" میں فورا اپنی کرسی سے اٹھا، ریستوران کا دروازہ کھولا اور استنبول کی بے رحم سردی کو انجوائے کرنا شروع کر دیا۔

Check Also

Dard Dil Ki Qeemat

By Shahzad Malik