Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Farooq/
  4. Beemar Hona Chor Dain

Beemar Hona Chor Dain

بیمار ہونا چھوڑ دیں

میں نے نرس سے پوچھا "ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں؟ " وہ بولی "ڈاکٹر صاحب ایک میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں " میں نے پوچھا "وہ کب تک میٹنگ سے واپس آجائیں گے" نرس نے کہا "مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں، وہ واپس آئیں گے یا نہیں اور اگر واپس آئیں گے تو کب تک میں نہیں جانتی" میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "یہ کیا بات کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہے...! ہمیں پہلے کہا گیا تھا، ڈاکٹر صاحب گیارہ بجے تک تشریف لے آئیں گے گیارہ تو دور بارہ بجے کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، اور اب دوبارہ پوچھنے پر آپ بتا رہی ہیں، پتا نہیں وہ اسپتال آئیں گے بھی یا نہیں، یہاں پر مریض درد سے کراہ رہے ہیں، تکلیف نے ان کی چیخیں نکلوادیں ہیں اور وہ اس امید کے ساتھ یہاں آئے ہیں کہ ان کے مسیحا ان کا علاج کریں گے، وہ تندرست اور صحت مند ہوکر دوبارہ سے زندگی کے میدان میں اتر سکیں گے مگر یہاں ڈاکٹر صاحب کو میٹنگ سے فرصت نہیں مل رہی، ان کی نظر میں میٹنگ مریضوں کی تکلیف سے زیادہ اہم ہے" نرس نے گھبرا کر میری طرف دیکھا اور غصے سے بولی "اس میں میرا کیا قصور ہے؟

اور پھر....ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک شخص بھاگا ہوا آیا اور بولا "میری والدہ کی سانسیں پھول رہی ہیں ان کی طبیعت بگڑ رہی ہے، آپ جلدی کچھ کریں اور نرس اس آدمی کے ساتھ چلی گی" ہم اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا انتظار کرتے رہے مگر ڈاکٹر صاحب تشریف نہ لائے، مریض سارا دن بے وارث لاشوں کی طرح پڑے رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، آدھے سے زیادہ عملہ فیس بک اور واٹس ایپ پر مصروف تھا، اگر کوئی غلطی سے بھی ان کو ان کا "کام" یاد دلانے کی غلطی کرتا تو وہ کھانے کو دوڑتے، مجھے اس دن ڈاکٹر صاحب کے نہ آنے کی وجہ سے سارا دن اسپتال میں گزارنا پڑا اور ہمارے ملک میں اسپتالوں کی صورتحال کس قدر خوفناک ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لئے کسی بھی عام اسپتال میں ایک دن گزار لینا کافی ہے، ایک عام آدمی کو بیماری سے چھٹکارا پانے کے لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، عملے اور ڈاکٹر صاحبان کی بدتمیزیاں سہنی پڑتی ہیں، اس کا اندازہ ہماری حکمران کلاس کو کہاں ہے؟ ان کو صرف سیاست سیاست کھیلنی ہے، کسی طریقے سے اقتدار کے مزے لوٹنے ہے، عوام سے کسی کو کوئی غرض ہی نہیں چنانچہ عام آدمی اسپتالوں میں بےعزت ہو یا پھر سڑکوں پر ذلیل و خوار کسی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

اس دن بھی میں نے بے شمار مریضوں کو عملے کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھا اور دیر تک حیرانگی سے یہ سوچتا رہا "ایک ایسا شخص جو پہلے ہی بیماری میں مبتلا ہے اسے تو ایک ایسے شخص کی ہمدردی کی ضرورت ہے جو اس کی دلجوئی کرسکے، جو اس کو حوصلہ اور ہمت دے سکے لیکن ہمارا عملہ اس کو ناگوار نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے، یہ اس سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا چنانچہ یہ مریض کی صحت صحت بحال کرنے کے بجائے اس کو مزید ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیتا ہے"تحقیق سے پتہ چلتا ہے "ڈاکٹر کے اچھے اور ہمدردانہ رویہ سے مریض کی آدھی صحت بحال ہوجاتی ہے" جبکہ یہاں بیمار کو مزید بیمار کرکہ گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے، مریض بیماری سے مرے یا نہ مرے لیکن ڈاکٹروں کا تلخ اور متشدد رویہ ان کو ضرور مار دیتا ہے، رہی انتظامات کی بات تو ہمارے ملک کے کسی بھی شعبے میں مکمل نہیں اور اگر کچھ تھوڑا بہت سامان ہے بھی تو وہ صدیوں پرانا ہے، جس کے ذریعہ ہم آج کی دنیا میں سروائیو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ صحت کے شعبے سے لے کر تعلیم، ٹیکنالوجی سے لے کر زراعت، انفراسٹرکچر، پولیسنگ، سیاست غرض کے کسی بھی شعبے میں دیکھ لیں آپ کو پورا سسٹم تباہ حال اور مسخ شدہ ملے گا جسے دنیا کب سے ترک کرکے بھلا چکی ہے اور ہم آج تک اسی سے چمٹے ہوئے ہیں لہذا مریض اسپتال پہنچتے ہیں تو ان کو نہ بہترین علاج میسر ہوتا ہے نہ بیٹھنے اور لیٹنے کے لئے اچھی جگہ کا بندوبست۔

عملے اور ڈاکٹروں کا "بی ہیو" ویسے ہی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، مریض کو اسپتالوں میں مسیحائی تو نصیب نہیں ہوتی لیکن اگر اللہ کا کرم ہوجائے تو وہ بچ نکلتا ہے، نہیں تو زہے نصیب ساری عمر اسپتالوں اور دواؤں کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوجاتا ہے لہذا میری آپ سب سے درخواست ہے "آپ سب آج کے بعد بیمار ہونا بند کردیں اور اگر بیمار ہونا ہی ہے یا آپ کو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہونے کا شوق ہے تو پھر لندن، پیرس یا امریکہ جاکر اس مرض میں مبتلا ہوں، اپنی صحت کا خیال رکھیں بجائے اس کے کہ ڈاکٹر علاج کرکے آپ کی صحت کی مت ماردیں، متوازن غذا لیں، ہلکی پھلکی ورزش کرلیں ہوسکے تو آدھا گھنٹہ پیدل واک کرلیا کریں، اللہ سے صحتمند زندگی کی دعا کیا کریں وگرنہ یہ نہ ہو علاج کے چکر میں ہسپتال اور ڈاکٹر صاحب مل کر رہی سہی کسر بھی نکال دیں اور پھر آپ کسی قابل نہ رہیں۔

Check Also

Be Mausami Ke Mausam

By Zafar Iqbal Wattoo