Apni Khushiyon Mein Ghareebon Ko Bhi Shamil Karen
اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بھی شامل کریں
ماہ صیام کے آخری بابرکت لمحات بہت تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہے ہیں، رمضان قدرت کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے، جس طرح بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اسی طرح دنوں کو بعض دنوں اور رمضان کو تمام مہینوں پر برتری حاصل ہے، رسالت ماب ﷺ نے فرمایا"رمضان میری امت کا مہینہ ہے" اس ماہ میں برکتیں، فضیلتیں اور رحمتیں اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہوتی ہیں اور برکتوں، عنایتوں کا یہ مہینہ اختتام پذیر ہونے کو ہے جس کے بعد پورا عالم اسلام عید کہ خوشیوں سے چہک اٹھے گا، لوگ بدنوں پر خوبصورت اور مہنگے ترین لباس زیب تن کیے ہوں گے، چہروں پر مسکراہٹیں رقص کررہی ہوں گی اور ہرکوئی رمضان سے مستفید ہونے کے بعد عید کے رنگوں سے لطف اندوز ہورہا ہوگا، ان حالات میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی خوشیاں ہم سے وابستہ ہیں، جن کی عیدیں جن کی مسکراہٹیں اور جن کی حسرتیں ہماری مرہون منت ہیں، محبتوں کے اس تہوار میں ان کو شریک کرنا، عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ان کا حق ہے اور ہمیں ان کا حق بہرحال ان تک پہنچانا چاہیے، ہمیں کسی بھی صورت ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ملک میں پہلے ہی پچاس فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، پچاس میں سے پچیس فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی حالت بد سے بدتر ہے، رہی سہی کسر کورونا اور مہنگائی نے نکال دی ہے، بڑے بڑے ادارے اور بڑی بڑی معیشتیں کورونا کا جھٹکا برداشت نہیں کرسکیں ان حالات میں یہ پچیس فیصد لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہوں گے؟ چھ سات کروڑ لوگوں کی زندگیاں کن کن عذابوں سے گزر رہی ہوگی؟ عید کے رنگوں میں ان کو شامل کرنا یہ اب ہماری ذمہ داری ہے، یہ ہمارا فرض ہے۔
قدرت جب بھی کسی انسان کو نوازتی ہے تو اس نوازش کا کچھ حصہ اپنے دوسرے بندوں کے لیے مخصوص کردیتی ہے، اس حصہ کو ان تک پہنچانا انعام یافتہ شخص پر فرض ہوتا ہے، اگر ایک شخص کو اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو ظاہری سی بات اس کا کاروبار بھی ہوگا اور اس کے ملازمین بھی ہوں گے ان ملازمین کا پورا پورا خیال رکھنا، وقت مقررہ پر ان کو تنخواہیں دینا مالک پر فرض ہے، قدرت نے دونوں کا رزق ایک دوسرے سے وابستہ کر دیا ہے لیکن مالک کو ملازم کا رزق پہنچانے میں بطور وسیلہ چن لیا ہے، ایک ماہر نفسیات انسانی ذہن کی پیچیدگیوں کو سمجھتا ہے اسے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی فلاں فلاں حرکت کیوں کرتا ہے، اس حرکت کا اس کو فائدہ ہوگا یا نقصان، اس کو پتہ ہوتا ہے خود کو اضطراب سے کیسے محفوظ رکھا جاتا ہے اور ایک ماہر نفسیات کی یہی تو ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی پریشانیوں سے نکلنے میں ان کی مدد کرے، عید کے اس موقع پر ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ہم ان چھ سات کروڑ لوگوں کا خیال رکھیں جن کی ذمہ داری قدرت نے ہمیں سونپی ہے وہ چاہیں چولستان کے ریگزاروں میں سسک سسک کر زندگی گزارنے والے ہوں چاہیں تھرپارکر کے بچے ہوں، کچی بستیوں میں زندگی کی راہ تکنے والے ہوں یا پھر یتیمی، غریبی اور بے بسی میں زندگی گزارنے والے ہوں ۔
مختلف انسانی معاشروں اور تہذیبوں میں غریبوں مسکینوں اور ناداروں کو حقیر، کمتر اور قابل نفرت سمجھا جاتا تھا، ان پر عرصہ حیات تنگ تھا مگر رسالت مآب ﷺ تھے جنہوں نے غریبوں کے ساتھ بدترین سلوک پر سخت سزا کی وعید سنائی اور لوگوں کو اس بات پر پابند کیا کہ مال کا ایک مخصوص حصہ ان لوگوں پر خرچ کیا جائے، حضرت خدیجہؑ آپ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں " بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں، غریبوں اور یتیموں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں " یہ حضور ﷺ کا اخلاق عالیہ ہے، سیرت کے وہ روشن مینار ہیں جن سے کائنات دمکتی رہے گی، قافلہ انسانیت فیضیاب ہوتا رہے گا، محبتیں بانٹنا بھی حضور کی سنت ہے آپ سڑکوں پر نکل کر عشق کا اظہار کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرکے اپنے عشق کا اظہار کریں، بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے کی کوشش کریں، ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا سبب بنیں، آپ نے کسی کو کما کر دینا ہے اور نہ ہی کسی کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا ہے بس اتنا سا کام کرنا ہے کہ غریب، کمزور بےسہارا، لاچار، نادار، اور بے بس لوگ عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں، اس عید پر ان کے بچوں کے چہرے بھی کھلا رہے ہوں، وہ بھی اس پرمسرت موقع پر مسرور ہوں، بس۔۔۔وگرنہ کل کہیں یہ نہ ہو حضور ﷺ خود ہی پوچھ لیں "لوگوں میں نے تمہیں غریب لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا تھا اور تم بس اپنے سروں پر نمازوں، روزوں اور عمروں کی گھٹڑیاں لاد کر آگئے ہو" پھر ہم کیا کہیں گے؟ منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔