Aik Aur Ramzan Bekar Chala Gaya
ایک اور رمضان بیکار چلا گیا
ابتداء میں ہی یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ" کالم کا عنوان ہی غلط ہے، کوئی کسی کے رمضان کہ بیکار چلے جانے کا دعوی کیسے کرسکتا ہے؟ ہم نے تو ماہ صیام میں خوب عبادتیں کیں، جی بھرکہ نیکیوں کو سمیٹا چناں چہ یہ رمضان بیکار کیسے ہوسکتا ہے؟ اور پھر رمضان کے روزے، عبادتیں اور مذہبی احکامات سراسر انفرادی معاملات ہیں ان کو اجتماعیت سے جوڑنے کی کیا تک بنتی ہے؟ ممکن ہے آپ اپنی جگہ پر درست سوچ رہے ہوں لیکن ہمیں ایک مرتبہ اس رمضان کا مجموعی طور پر بھی جائزہ لینا چاہیے، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے "بحیثت قوم اور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہم نے کیسا رمضان گزارا ہے؟ آپ خود سوچیں ایک ایک شخص کے ملنے سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور معاشرے کو جاننے کیلئے ہمیں اس کا مجموعی طور پر حساب لگانا ہوتا ہے، پھر یہ بھی تو ہے جس معاشرے کی اکثریت بگاڑ کی لپیٹ میں ہو وہاں انفرادی طور پر کوئی کتنا نیک بخت ہوگا؟ اور جو لوگ نیک بخت ہیں، پرہیزگار ہیں وہ سیاہی میں لپٹے لوگوں میں رہ کر کتنی دیر تک اپنی پرہیزگاری کو برقرار رکھ سکتے ہیں؟ لہذا مجموعی طور ہمیں اس رمضان کا جائزہ لینے اور یہ دیکھنے میں کوئی عار نہیں کہ کیا ہم نے اپنے لوگوں کا خیال رکھا؟ کیا روزے رکھ کر ہمیں اپنے اردگرد موجود بھوکے، لاچار بے نواؤں کی مسکینی، بیچارگی اور لاچاریت کا اندازہ ہوا؟ ہر سال رمضان کی آمد پر ہمارے ہاں مہنگائی کی شرح آسمانوں تک پہنچ جاتی ہے، تاجر صاحبان سے لیکر ایک چھوٹا سا عام دکاندار بھی اس ماہ صیام کو سیزن سمجھ کر خوب مال سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، وہ لوگ جو سارا سال سٹیجوں پر ننگا ڈانس کرتے ہیں وہی رمضان میں سرڈھانپ کر لوگوں کو اسلام سکھارہے ہوتے ہیں، سارا سال فحاشی، بے حیائی اور بدتہذیبی پھیلانے کے پرچم بردار ٹی وی چینلز رمضان میں لوگوں کی اصلاح کیلئے نکل پڑتے ہیں، اس ماہ تو یہ کمال بھی ہوا کہ مسلمان کہلانے والے دوگروہ ایک دوسرے پر پل پڑے، رمضان کی برکتیں سمیٹنے کے بجائے خوب تماشا لگایا گیا، روزے رکھ کر قانون اور وردی کی دھجیاں اڑائی گئیں، مسلمان ہی پوری دنیا میں اسلام کی جگ ہنسائی کا سبب بن گئے اور یہ کونسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
ہم مسلمان چودہ سو سالوں سے رمضان میں روزے رکھنے کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں، اسلام کی طرح دیگر مذاہب میں بھی روزے رکھنے کا حکم ملتا ہے، بنی اسرائیل کے لئے عاشورہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا اور وہ آج بھی اس پر عمل کرتے ہیں، ان کا روزہ سورج ڈوبنے پر شروع ہوتا ہے اور اگلے روز رات کے شروع پر ختم ہوتا ہے اس دوران یہودی کھانے پینے کے ساتھ جنسی تعلقات سے گریز کرتے ہیں، آرائش کے سازوسامان سے پرییز کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنا زیادہ تروقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں جہاں توبہ واستغفار کے ساتھ توریت کی تلاوت کرتے ہیں۔
یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے، انجیل کی روایت کے مطابق عیسی علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس راتیں روزہ رکھا اور اپنے حواریوں کو بھی روزے رکھنے کی تلقین کی، رومن کیتھولک اور آرتھوڈاکس فرقے میں آج بھی روزے رکھے جاتے ہیں جبکہ پروٹسنٹ فرقے میں روزہ کو پیروکاروں کی مرضی پر چھوڑدیا گیا۔
ہندومت میں قدیم زمانے سے ہی روزے کا تصور موجود ہے، ہندو ہر بکرمی مہینہ کی گیارہویں بارہویں تاریخ کو "اکادشی" کا روزہ رکھتے ہیں جو سال میں 24 روزے بنتے ہیں اسی طرح قدیم مصریوں، قدیم یونانیوں اور پارسیوں کی ہاں بھی مختلف صورتوں میں روزہ رائج تھا، مذاہب عالم میں روزے رکھنے کی وجوہات جو مختلف مذاہب کی مختلف کتابوں میں بیان کی گئیں ہیں وہ قریبا سب آپس میں ملتی جلتی ہیں، مثلا انسان متقی بن جائیں، اپنے مالک وخالق کے اطاعت کریں، روزہ کے ذریعے منہیات سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی، نفسیانی وجسمانئ خواہشات کو تیاگ دینے کا حکم دیا گیا، دنیا سے دین کی طرف راغب کرنے کیلئے روزے کا سہارا لیا گیا اور ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا، گناہوں سے بچنا ہے، کسی کا حق نہیں مارنا، کسی پر ظلم نہیں کرنا، لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں، سچائی، دیانت داری، پرہیز گاری اور صبر کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحمل بردباری اور عدل انصاف سے کام لینا ہے، روزے کی صورت میں یہ احکامات مزید سخت ہوجاتے ہیں، ہمارا مذہب بھی ہمیں انھیں تمام چیزوں کی تلقین کرتا ہے تاکہ 30 دن کی مسلسل یہ پریکٹس مسلمانوں کی زندگیوں کا حصہ بن جائے، جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے مگر بدقسمتی کے ساتھ ہم میں کتنا صبر، کتنی برداشت اور کتنا تحمل ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ناپ تول میں کمی روزمرہ کے معمول ہیں، دونمبر اشیاء بیجنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے، یہاں نہ سچ بولا جاتا ہے، نہ دیانت داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی عدل وانصاف سے کام لیا جاتا ہے، ہم یہ سارے کام رمضان میں بھی کھلم کھلا اور بے جگری کے ساتھ کرتے ہیں، رمضان ختم ہونے سے پہلے عید پر دکھائی جانے والی فلموں ڈراموں اور پروگراموں کے اشتہار چلنا شروع ہوجاتے ہیں اور دینی پروگرام اگلے رمضان تک کیلئے دوبارہ غائب کردیے جاتے ہیں، ہرسال یہی کچھ چلتا ہے رمضان کے اختتام پر ہماری معاشرتی منافقت بلا دھڑک ظاہر ہونے لگتی ہیں اور بعد ہمیں اس چیز پر اعتراض ہوتا ہے کہ ہمارے رمضان کے بیکار چلے جانے پر کوئی انگلی کیوں اٹھاتا ہے!