Teen Sawal (1)
تین سوال(1)
ایک دفعہ ایک بادشاہ کے ذہن میں تین ایسے سوالات در آئے، جن کے متعلق بادشاہ کا پختہ یقین تھا کہ اگر وہ کسی طرح بھی ان کے جوابات جان گیا تو پھر وہ دنیا کے ہر معاملے میں ناقابل شکست بادشاہ بن جائے گا۔ بادشاہ کی بے چینی کا سبب وہ تین خواہشات یا تین سوالات کچھ یوں تھے، بادشاہ جاننا چاہتا تھا کہ ہمیشہ کسی بھی کام کو شروع کرنے کا درست وقت کون سا ہوتا ہے؟
بادشاہ کی دوسری خواہش یہ تھی کہ اسے ہمیشہ اچھے اور برے لوگوں کی پہچان نصیب ہو تاکہ وہ جان سکے کہ کون لوگ مجلس کے قابل ہیں اور کن لوگوں سے دوری اختیار کرنی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر اسے یہ بات جاننے کی شدید تمنا تھی کہ اس کے لیے سب سے ضروری اور اہم کام کیا ہے؟ تاکہ وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالے اسے ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔
رفتہ رفتہ اس خیال نے بادشاہ کے دل میں مضبوط جڑ پکڑ لی اور جب بادشاہ خود سے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں ناکام رہا تو جوابات جاننے کی جستجو میں اس نے سلطنت بھر میں منادی کروادی کہ جو شخص بھی اسے ٹھیک ٹھیک بتائے گا کہ، کسی بھی عمل کا صحیح وقت کون سا ہے؟ اہمیت کے حامل ضروری لوگ کون سے ہیں اور بادشاہ کو کیسے پتا چلے گا کہ سب سے اہم کام کون سا ہے؟
تو اس شخص کو شاہی خلعت و عزت سے نوازا جائے گا۔ سلطنت کے طول و عرض سے اربابِ علم و دانش نے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوکر اپنی اپنی فہم و عقل کے مطابق سوالوں کی گتھی سلجھانے کی کوشش کی اور ایک سے بڑھ کر ایک جواب پیش کیا گیا۔ پہلے سوال کے جواب میں بعض نے کہا کہ ہر عمل کا بالکل ٹھیک ٹھیک وقت جاننے کے لیے، پہلے سے ہی دنوں، مہینوں اور سالوں کا جدول تیار کرنا چاہیے۔
پھر اس کے مطابق تمام کاموں کا ایک زائچہ تیار کیا جائے اور سختی سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ زندگی پہلے سے بنائی گئی، اس ترتیب کے مطابق گزاری جائے۔ صرف اسی صورت میں، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کام درست وقت پر شروع کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے عالموں نے اعلان کیا کہ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، ہر عمل کے لیے پہلے سے صحیح وقت کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔
لیکن ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بیکار مشاغل میں مشغول ہونے سے بچانے کی حتیٰ المقدور سعی کرے، اور جو کچھ ہو رہا ہو ہمیشہ اس پر گہری توجہ مرکوز رکھے، اور پھر اس کے مطابق وہی کرنا چاہیے، جو ضروری ہو۔ چند دیگر علماء کرام نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت جو کچھ ہورہا ہو، اس پر خواہ کتنی ہی زیادہ توجہ کیوں نہ ہو، آدمی کے لیے تن تنہا ہر عمل کے لیے درست وقت کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔
لیکن اگر اس کے ساتھ داناؤں کی ایسی مجلس شوریٰ ہو جو اسے ہر کام مناسب وقت پر ٹھیک ٹھیک کرنے میں متفقہ طور پر مدد کرے تو ایسا ہونا ممکن ہے۔ دانشمندوں کے دوسرے گروہ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا، کچھ کام ایسے ہوتے ہیں، جن کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے طرفتہ العین جتنا وقت بچتا ہے، اس لیے ایسے کام جن کا فیصلہ عجلت میں کرنا ناگزیر ہو۔
انہیں کسی مجلس میں رکھنے اور مشاورت کرنے سے وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ لیکن کوئی بھی ایسا فعل، جس کے متعلق بیک وقت یہ فیصلہ کرنا ہو کہ اسے کرنا ہے یا نہیں کرنا، تو ایسے فیصلے وہی کرسکتا ہے۔ جو آنے والے وقت کے متعلق پہلے سے بخوبی جانتا ہو، اور کسی بھی چیز کا پیشگی علم صرف جادوگروں کے پاس ہی ہوتا ہے، اس لیے ہمیشہ کے لیے قبل از وقت کسی بھی عمل کا صحیح وقت جاننے کے لیے جادوگروں سے مشاورت نہایت ضروری ہے۔
دوسرے سوال کے جواب بھی اتنے ہی مختلف تھے، بعض اہل علم حضرات نے اتفاق کیا کہ بادشاہ کو اپنی مجلس خاص کے لیے جن لوگوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، وہ اس کے وزیر باتدبیر اور مشیر ہیں، اس کے بعد خدا ترس اور مذہبی لوگ، پھر حکماء وأدباء جبکہ بعض نے اضافہ کیا کہ نہیں سب سے زیادہ ضروری اور اہم ترین لوگ جنگجو افراد ہیں۔
تیسرے اور آخری سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ سب سے اہم کام کون سا ہے تو بعض نے جواب دیا دنیا میں سب سے زیادہ ضروری کام سائنسی علوم و فنون میں دسترس حاصل کرنا ہے، بعض نے کہا نہیں فن حرب میں مہارت ہی اہم چیز ہے، اور چند دوسروں علماء نے دوبارہ اس بات پر زور دیا کہ صرف رب کی عبادت اور مذہب کی تعلیم ہی ہر چیز پر مقدم ہے۔
تمام عالم فاضل لوگ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے مختلف جوابات دینے کے باوجود بادشاہ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے، اور اس طرح کوئی بھی صاحبِ علم شخص بادشاہ کی طرف سے اعلان کردہ انعام کا حقدار قرار نہ پایا۔ آخر کار بادشاہ نے ایک ایسے فقیر سے ملنے کا فیصلہ کیا، جس کی حکمت و دانش کا چرچا چہار دانگ عالم میں تھا۔ اس فقیر کا مدتوں سے مستقل بسیرا ایک ایسے جنگل میں تھا۔
جہاں سے نہ کبھی وہ کسی سے ملنے واسطے باہر گیا تھا اور نہ ہی وہ عام لوگوں کے سوا کسی سے میل جول رکھتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ نے سادہ لباس زیب تن کیا، فقیر کی کٹیا میں پہنچنے سے قبل ایک مقام پر اپنے گھوڑے سے نیچے اترا، اپنی حفاظتی سپاہ کے دستے کو وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا، اور خود پیدل چلتا ہوا، اس فقیر کی جھونپڑی تک جا پہنچا۔
جب بادشاہ اس فقیر کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ فقیر اپنی کٹیا کے عین سامنے والی زمین کو مٹی کو پھاؤڑے کے ساتھ کھود کر کیاریاں بنا رہا تھا۔ فقیر نے بادشاہ کو اپنے ہاں دیکھ کر شفیق لہجے میں خوش آمدید کہا، اور دوبارہ مٹی کھودنے میں مشغول ہوگیا۔ فقیر جسمانی طور پر نہایت ضعیف تھا اور جیسے ہی اپنے ناتواں جسم کی بچی کھچی ہمت جمع کرکے زمین پر پھاؤڑا مار کر تھوڑی سی مٹی نکالتا تو بری طرح ہانپنے لگ جاتا اور پھر ہر بار وقفے وقفے سے دیر تک سانس بحال کرتا رہتا۔
بادشاہ نے فقیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "اے دانا شخص میں اپنے تین سوالوں کے جوابات کی تلاش میں تم تک آن پہنچا ہوں، اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے اپنے تمام سوال اس فقیر کے سامنے دہرا دیے۔ کسی کام کو شروع کرنے کا بہترین وقت کون سا ہوتا ہے؟ کن لوگوں سے ملنا چاہیے اور کن سے اجتناب کرنا چاہیے؟ دنیا میں سب سے اہم اور ضروری کام کیا ہے؟
فقیر نے بادشاہ کے سوالات کو خاموشی سے سنا اور بغیر کوئی جواب دیے اپنے ہاتھوں پر تھوک ملتے ہوئے پھر سے چپ چاپ زمین کی مٹی کو کھودنا شروع کردیا۔ بادشاہ نے کوئی جواب نہ پاکر کہا، تم یقیناً تھک چکے ہو، لہذا یہ پھاؤڑا مجھے دو میں تمھاری خاطر یہ کام کردیتا ہوں۔ فقیر نے شکریے کا اظہار کیا اور پھاؤڑا بادشاہ کے حوالے کرکے خود وہیں زمین پر ہی بیٹھ گیا۔
جب بادشاہ نے زمین کھودنے اور نرم کرنے کے بعد دو کیاریوں کے لیے جگہ ہموار کرلی تو وہ رک گیا، اور ایک بار پھر فقیر کے سامنے اپنے سوالات کو دہرایا، فقیر نے اس بار بھی کوئی جواب نہ دیا، اور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بادشاہ کی جانب ہاتھ بڑھایا اور کہا، شاید تم تھک چکے ہو لہذا کچھ دیر آرام کرلو اور لاؤ پھاؤڑا مجھے دو، میں اس دوران مزید کام کرلیتا ہو۔
بادشاہ نے فقیر کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پھاؤڑا اپنے پاس ہی رکھا اور بدستور کیاریوں کو کھودنے کا کام جاری رکھا۔ اسی طرح لگ بھگ ایک گھنٹہ گزر گیا، پھر دوسرا اور اس کے بعد وقت اسی طرح گزرتا رہا حتیٰ کہ دھیرے دھیرے سورج درختوں کے عقب میں غروب ہونا شروع ہوگیا، بادشاہ نے آخرکار پھاؤڑے کو زمین میں پیوست کرتے ہوئے کام کو روکا، اور کہا۔
اے دانشمند انسان میں آپ کے پاس اپنے سوالوں کے جواب کی غرض سے آیا تھا، اگر آپ کے پاس مجھے بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، تو مجھے کم ازکم انکار تو کردیں تاکہ میں واپس اپنے گھر کو لوٹ جاؤں۔ اسی اثنا میں جنگل کی جانب سے دوڑتا ہوا کوئی شخص نظر آیا تو فقیر کہنے لگا، جناب وہاں کوئی آرہا ہے، چلو وہاں دیکھتے ہیں کہ یہ کون ہے۔