Teen Jigri Dost
تین جگری دوست
اظہر، صفدر اور سکندر، تینوں جگری دوست تھے۔ ان کی دوستی نہ صرف اس گاؤں بلکہ اردگرد کے دیہاتوں میں بھی ضرب المثل تھی۔ جہاں ذہانت بے مثال تھی وہاں نت نئی بے ضرر شرارتوں کے موجد بھی وہی تھے۔ یوں تو وہ سب کی آنکھ کا تارا تھے مگر اساتذہ اکثر کہتے تھے، یہ شرارتی تکون جہاں اکٹھی ہوجائے تو وہاں شیطان کی بھی ایک نہیں چلتی۔
سالانہ امتحانات ہوں یا پھر غیر نصابی مقابلے، اول، دوم، سوم تینوں پوزیشنوں پر ان کی ذہانت کی ہی اجارہ داری تھی۔
یہ اس دور کی بات ہے جب کلائیاں گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیوں کی گرفت سے آزاد تھیں، ہاتھوں میں فقط دوستی کا ہاتھ ہوتا تھا، اور دل میں کینہ کدورت کی بجائے ایک دوسرے کی محبت بستی تھی۔
دیہاتوں میں رواج تھا کہ مغرب کے بعد گھروں سے باہر نکلنے پر ممانعت تھی۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا جس میں گھر کے سارے افراد مل کر صحن میں اکٹھے بیٹھتے اور ایک دوسرے کے حال احوال کی باتیں ہوتی تھیں، ساتھ ہی سکول جانے والے بچوں کے سبق کی دہرائی بھی کرائی جاتی تھی۔
یوں تو وہ تینوں پڑھائی کے وقت سکول ہو یا گھر ایک ساتھ ہی رہتے تھے، مگر ان تینوں کو شام کے وقت چند گھڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ بِتانے کی مشروط اجازت ملی ہوئی تھی۔ مشروط اس طرح کے گھر اور سکول کا سارا کام مع کھیل کود مغرب سے پہلے ہر صورت نمٹانا ہوتا تھا، جس کے بعد یہ رعایت ملی ہوئی تھی کہ وہ چاہیں تو کسی ایک کے گھر میں اکٹھے ہو کر مغرب سے عشا تک کا وقت گزار سکتے تھے۔
جیسے ہی شام منڈیروں سے اتر کر صحن میں پھیلنے لگتی تو وہ کھانا کھاتے اور چپکے سے آنکھ بچا کر گھر سے کھسک لیتے۔
حاجی چچا کی قدیم خستہ کھنڈر حویلی میں ان کی بیٹھک جمتی، جہاں گاؤں والوں کے بقول جن بھوتوں کا بسیرا تھا، اور وہ تینوں کسی جن بھوت سے کم نہیں تھے۔ وہاں وہ دنیا جہاں کی گپیں ہانکتے، حالانکہ اسوقت اپنے گاؤں یا زیادہ سے زیادہ اردگرد کے دیہاتوں میں جانے کے علاوہ تو وہ باہر کبھی نکلے ہی نہیں تھے۔
اکا دکا گھروں میں موجود ٹیلیویژن یا ریڈیو پر ہاکی یا کرکٹ میچ کے علاوہ ان کی پسند کی کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہوتی تھی جو ان کی گفتگو کا موضوع بنتی، ہاں مگر وہ رسالے جو سکندر کا باپ شہر سے لاتا تھا، انہیں پڑھنا اور پھر ان میں لکھی ہوئی کہانیوں پر طویل گفتگو کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، سلسلہ وار ناولوں پر گھنٹوں بحث کرتے اور پھر اگلی قسط کے انتظار کے ساتھ وہ خود ہی سوچ لیتے تھے کہ آئندہ شمارے میں فلاں کردار کے ساتھ ایسا ہوگا اور فلاں کے ساتھ ویسا۔
اس کے علاوہ تو انہوں نے کوئی دنیا دیکھی بھی نہیں تھی، نہ ہی ان دیہاتوں میں کوئی بڑا آدمی رہتا تھا جس کی باتیں کرتے، نہ ہی گاؤں میں کسی کا کوئی بڑا خواب ہوتا تھا، وہاں لوگوں کے خواب ایسے ہوتے تھے، "شہر جانے والی لاری کا کنڈکٹر لگنا" چنے کی فصل فروخت کرکے تانگے کا نیا پہیہ بنوانا" زمین بیچ کر بیٹی بیاہنا"۔ مگر ان تینوں کے خواب اس گاؤں کی مٹی سے جدا تھے، صفدر انجینئر بننا چاہتا تھا، سکندر کا خواب بینکر بننے کا تھا اور اظہر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔
خود ان کے والدین مزدوری کرتے تھے اور وہ اسی مزدوری کے بل بوتے پر عیاشی کرتے تھے، سب لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ تینوں شہزادے ہیں جو کام کاج کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے، ماؤں کے راج دلارے تھے جو افسر بننے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ ان تینوں میں سکندر سب سے زیادہ ذہین اور لائق تھا، خوبصورت بھی بلا کا تھا ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتا تھا، بالوں کو فلمی ہیرو کی طرح سنوار کر رکھتا تھا، مجال ہے کبھی میلے کپڑے یا گندے جوتے پہنے ہوں، سب کی مائیں اکثر سکندر کا حوالہ دیکر باقیوں کو شرم دلاتیں کہ کم از کم صاف ستھرا رہنا تو سکندر سے سیکھ لو۔
سب سے زیادہ ٹرافیاں، انعامات، کتابیں اور کھلونے بھی اس کے پاس تھے، سچ بات یہ ہے کہ اس کے دوست اس کی ہر چیز سے طفلانہ رقابت بھی رکھتے تھے، اظہر اور صفدر دونوں ہر روز منصوبہ بناتے تھے، کہ سکندر کی ٹرافیاں، کھلونے اور اس کے پاس نادر رسالوں کا جو ذخیرہ ہے وہ چوری کرکے، ساتھ والے گاؤں کے پرانے کنویں میں پھینک دیں گے، مگر وہ سکندر ہی کیا جو دوستوں کی چالوں سے واقف نہ ہو اور مات کھا جائے، وہ تھا بھی بڑا ذہین، پہلے ہی اجازت کے بغیر کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا، مگر دوستوں کے ارادے بھانپ کر، اس نے اپنی خوبصورت ٹرافیاں، کھلونے اور غیر نصابی کتابوں کو رضائیوں والی پیٹی میں چھپا کر موٹا سا تالا لگا دیا تھا، اور یوں ان کی حسرت نا تمام ان کے دل میں ہی دفن ہو کر رہ گئی تھی۔
سکندر اکثر کہتا تھا جب ہم زندگی میں کامیاب ہوجائیں گے، شادیاں کریں گے اور جب ہمارے بچے ہوں گے تو اظہر اور صفدر کے بچوں کے نام بھی سکندر ہی رکھے گا کیونکہ وہ انہیں کہتا تھا تم دونوں نرے گھامڑ ہو تمھیں تو اچھے نام رکھنے بھی نہیں آئیں گے۔۔ یہ ان سب کی ایک دوسرے سے محبت تھی، گاؤں کی ہر چیز کی طرح تصنع اور ملاوٹ سے پاک خالص محبت۔
کھنڈر حویلی میں گپیں لڑاتے انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا، وہ بھول جاتے تھے کہ شب کا کونسا پہر ہے، وہ تو تب پتا چلتا جب صفدر کا بوڑھا باپ لاٹھی ٹیکتا انہیں ڈھونڈتا ہوا وہاں آپہنچتا، ہاتھ میں پکڑی لاٹھی سے دو تین ضربیں صفدر کو لگاتا اور ایک آدھ ان دونوں کو، ساتھ مصنوعی غصے سے لعن طعن کرتا کہ گھروں میں تمھاری مائیں تمھارا رستہ تک رہی ہیں اور تم یہاں چوہوں کی طرح دبکے بیٹھے ہو۔۔
وقت کا کام ہے ہر چیز کو روند کر گزر جانا، سو ان کا بھی بچپن اور لڑکپن کا وقت گزر گیا، تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی، گاؤں کی ریتی رواج کے مطابق انہیں بھی وہی مسائل در پیش تھے جو اچھی فصل نہ ہونے پر قرضوں میں ڈوبے کسان کے ہوتے تھے، وہی ہوا، وہ بھی تدبیر کے گھوڑے پر سوار اپنے رزق کی کھوج میں مختلف شہروں میں نکل گئے، وہ جن کا ایک دوسرے کے بغیر ایک پل نہ گزرتا تھا، ان کو ایک دوسرے کی شکل دیکھے ہوئے بھی ماہ و سال بیتنے لگ گئے۔
گاؤں کے اکثر گھروں میں تھوڑی سی خوشحالی آگئی تھی اور وقت نے پلٹا کھایا تو یوں ہونے لگا کہ سال چھ ماہ بعد جب اظہر گاؤں میں زمین کا حساب لینے جاتا تو پھر گاؤں کی واحد دوکان پر ان سب کا اتفاقاً مل جانا ہی ملاقات کہلاتا تھا، وگرنہ گاؤں میں اکٹھے ہو بھی جاتے تو اتفاق یا پھر کسی بہانے سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی تھی تو اس میں مدت سے بچھڑے ہوؤں کے ملن والی یا پھر شناسائی والی گرمجوشی مفقود ہوتی تھی۔۔
ایسے ہی ایک بار اظہر گاؤں گیا تو، دو اڑھائی سال کے بعد اسی دوکان پر ہی اتفاقاً ان تینوں کی ملاقات ہوگئی، اظہر بچوں کے لیے نیپیاں لینے گیا تھا، صفدر شاید بچی کے فیڈر کی نپل لینے آیا تھا، اور اپنے وقت کا چاکلیٹی ہیرو خوبصورت بالوں والا خوش پوش سکندر، گندے میلے کپڑوں میں ملبوس تھا، بال ایسے تھے جیسے پیدائش کے بعد کنگھی کی صورت نہ دیکھی ہو، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے، چہرے پر قبل از وقت کی جھریاں، تینوں حیران پریشان ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، اظہر کو وہاں کھڑے کھڑے اچانک یاد آگیا کوئی سات ماہ قبل سکندر کا خط آیا تھا کہ یار حالات بہت خراب ہیں، کچھ پیسے ادھار دو، اور اظہر نے وہ خط پڑھ کر سوچا تھا ابھی تو پچھلے تین سو روپے واپس نہیں کیے، اور پھر سے مانگ رہا ہے، نہ اس نے جوابی خط لکھا اور نہ ہی دوبارہ سکندر کی طرف سے کوئی چٹھی آئی، اور آج یوں اسے مفلوک الحال سا دیکھ کر شرمندگی کے ساتھ جیسے کلیجے پر آرا سا چل گیا تھا۔
سکندر کی مٹھی میں مڑے تڑے چند کاغذی نوٹ تھے، بڑی گرمجوشی سے دونوں سے ملا، اس سے پہلے کہ اظہر اس کے متعلق پوچھتا، اس نے ہمیشہ کی طرح پہل کر دی، اداس آنکھوں کے باوجود چہک کر اظہر سے کہنے لگا "بابو جی یہ اپنا صفدرو تو ملتا رہتا ہے مگر آپ کے بڑے عرصے بعد درشن ہورہے ہیں" سب خیر خیریت ہے نا"؟ اظہر کہنے لگا ہاں یار سکندرو سب خیر ہے تمھارے بھتیجے کے لیے نیپیاں لینے آیا ہوں، اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے تو سکندر کو بتایا بھی نہیں تھا کہ پانچ ماہ قبل بیٹا ہوا تھا، ایک لمحے کے لیے تو سکندر کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا، پھر فوراً سنبھل کر خوشی خوشی بغیر کوئی شکوہ کیے مبارک باد اور دعائیں دینے لگا، صفدر کی بیٹی کا شاید اسے پتا تھا، اس سے گپ شپ کرنے لگا، اظہر نے بہتیرا پوچھا کہ اپنے بارے میں بتاؤ لیکن ذہین لوگ اپنے بارے میں کب خبر ہونے دیتے ہیں، وہ بھی بڑی خوبصورتی سے ٹال گیا، اس نے دوکان سے کچھ بھی نہ خریدا الٹا ان دونوں کو ٹھنڈی بوتلیں پلائیں، اور اپنی مٹھی سے مڑے تڑے چند نوٹ نکال کر کہنے لگا، یار بابو اظہر اس وقت بڑی جلدی میں ہوں، چند ضروری کام ہیں، یہ چند روپے رکھ لو میری طرف سے میرے بھتیج اور اپنے بیٹے کو دے دینا، پہلے پتا ہوتا تو ڈھول باجے لیکر آتا، اپنے یار کی خوشی مناتا، سارے گاؤں والوں کو پتا چلتا کہ ہمارے یار کے آنگن میں عید کا چاند اترا ہے، لیکن چند دنوں تک میں آؤں گا پھر دیکھنا دھوم دھام سے بھتیجے کا جشن منائیں گے، چند نوٹ اس نے زبردستی اظہر کو تھمائے، گلے بھی نہ ملا اور دونوں کو ہکا بکا چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔۔ اظہر نے پیسے گنے تو تقریباً دو سو روپے تھے، اس نے دل ہی دل میں کہا دو سو روپے دے کر کہتا ہے یار کا جشن مناؤں گا، کنگلا نہ ہو تو۔۔
اس کے بعد نہ وہ اظہر سے ملنے آیا اور نہ ہی اظہر اس کے گھر گیا۔ چند دن گاؤں میں گزار کر اظہر پھر واپس اپنے کام پر چلا گیا۔
چند ماہ گزرنے کے بعد ایک دفعہ کسی کام سے جاتے ہوئے اظہر کی گاڑی اس کے شہر کے بس اڈے کے قریب خراب ہوگئی، وہ وہاں پر گاڑی ٹھیک کروا رہا تھا کہ صفدر سے ملاقات ہوگئی، صفدر کی وہاں قریب ہی کوئی دوکان تھی شاید، وہ دونوں قریبی کھوکھے پر چائے پینے بیٹھ گئے، باتوں باتوں میں، اظہر نے سکندر کا پوچھا تو کہنے لگا یار دو وقت کی روٹی تو ہم سب کے خواب کھا گئی ہے مگر وہ سکندر جسے مقدر کا سکندر بننا تھا، اس کے مقدر نے اس کے ساتھ یاوری نہیں کی اور وہ بے چارہ اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرتا ہے، یہ خبر تو جیسے اظہر کے لیے دھماکے سے کم نہیں تھی، وہ تو ششدر ہی رہ گیا، مگر فوراً ہی سنبھلتے ہوئے گویا ہوا، یہ کیسے ہوسکتا ہے، سکندر اور مزدوری نہیں یار میں یقین نہیں کرسکتا؟
صفدر کہنے لگا، تمھیں تو پتا ہے وہ مزدوری کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا تھا اس کے بڑے اونچے خواب تھے، مگر باپ کی اچانک وفات اور والدہ کی بیماری نے، سات بہنوں کے اکلوتے لاڈلے بھائی کو مزدور بنادیا، سکندر کے باپ کی وفات کا تو اظہر کو پتا بھی نہیں چلا تھا، انکشاف در انکشاف سے تو وہ جیسے گنگ ہوگیا تھا، صفدر، اظہر سے کہہ رہا تھا، تمھیں یاد ہے پچھلی بار جب گاؤں کی دکان پر ملاقات ہوئی تھی، اس وقت سکندر تین چار ماہ سے بے روزگار تھا، میں اس کی تھوڑی بہت مدد کردیتا تھا، مگر میرا ہاتھ بھی ذرا تنگ تھا، بے روزگاری اور اوپر سے گھر کے مسائل سے اس کے سر پر بھی بے تحاشا قرض چڑھ چکا تھا۔
اسی دن اس نے چند روپوں کے عوض اپنا بچپن، اپنا خواب، اپنے کھلونے، ٹرافیاں، انعامات، کتابیں کباڑیے کو بیچ کر دوکاندار کا پچھلا ادھار چکانا چاہا مگر اس کی ہم سے ملاقات ہوگئی اور مروت میں بجائے مدد مانگنے کے الٹا وہ تمھیں اپنی جمع پونجی دے کر چلا گیا، صفدر اس کے بعد پتا نہیں کیا کیا کہتا رہا مگر اظہر کی آنکھوں میں یاد رفتہ کا منظر تصویری فلم کی طرح چلنے لگا اور آنسو سیسہ بن کر اس کے کانوں کے اندر گرنے لگے اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ گونگا بہرہ ہوتا جارہا تھا۔