Sadio Mane Ki Kahani
سادیو مانی کی کہانی
میں نے ٹھان لیا تھا چاہے کچھ بھی ہو بننا میں نے فٹبال کا کھلاڑی ہی ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ فٹبالر کیسے بنوں گا، میں صرف ایک بات جانتا تھا اور وہی کرتا تھا کہ کامیاب ہونے تک ہر وقت سیکھتے رہنا اور کھیلتے رہنا ہے۔
اس وقت سعودی فٹ بال کلب النصر اپنے کلب میں رونالڈو کے بعد مزید ایک نئے کھلاڑی کو شامل کرنے کے متعلق بے حد پرجوش ہے، نہ صرف کلب بلکہ عرب ورلڈ سمیت پوری دنیا کے فٹ بال شائقین اس خبر کو لے کر جہاں حیران ہیں وہاں وہ اس عظیم کھلاڑی کی شمولیت پر بڑی مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کھلاڑی کے حقوق کئی ملین یورو میں فروخت کرنے کا اعلان ہوا اور اس بولی میں سب سے پہلے حصہ لے کر غیر اعلانیہ طور پر معاہدہ کرنے والا النصر کلب تھا۔
فٹ بال کے کھلاڑیوں کے کلب بدلنے پر ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے transfer market value کہا جاتا ہے، اس کے مطابق اس کھلاڑی کی ٹرانسفر مارکیٹ ویلیو 60 ملین یورو تک ہے۔ وہ ایسا کھلاڑی ہے کہ بیماری کے باعث قطر فٹبال ورلڈ کپ میں شامل نہ ہوسکا، مگر اس کی تصویریں قطر کی بڑی عمارتوں پر آویزاں کی گئی تھیں۔ وہ کھلاڑی کون ہے جس کی اتنی اہمیت ہے کہ ہر کوئی اسے اپنے کلب کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔
اس کھلاڑی کا نام ہے سادیو مانی Sadio Mané، اور اس کا تعلق افریقی ملک سینیگال سے ہے۔
کہانی شروع ہوتی ہے سینیگال کے پسماندہ ترین گاؤں بمبالی سے، جہاں ایک امام مسجد چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا فٹ بالر کی بجائے پڑھ لکھ کر استاد بنے۔ وہ اپنے کم سن بیٹے کے خواب سے مطمئن نہیں تھا، ہوتا بھی کیسے، افریقہ میں تو ہر دوسرے بچے کا خواب فٹ بال کھیلنا اور سٹار کھلاڑی بننا ہوتا ہے، مگر لاکھوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی خواب سے تعبیر تک جست لگاتا ہے اور کامیاب ہو پاتا ہے۔
پھر ایک دن جب وہ لڑکا 7 سال کا تھا تو اس کا باپ مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا۔ اس کے بعد لڑکے کے چچا سمیت پورے خاندان نے اسے کہا کہ اگر تم فٹ بال کھیل کر ہی نام کمانا چاہتے ہو تو ہم ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور غریب لوگ کیا تعاون کر سکتے تھے؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہ جاؤ کسی بڑے شہر میں جا کر کسی ماہر کو اپنا فن دکھاؤ اور کسی اچھے کلب کی رکنیت حاصل کر لو۔
اس نے بھی یہی کیا، وہ اپنے گھر سے دور دوسرے شہر چلا گیا، وہاں جب وہ ایک فٹ بال کلب میں پہلی بار ٹرائل دینے کے لیے قطار میں لگا تو اپنی باری آنے پر رجسٹریشن فارم پُر کرنے والے نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کہا تم ان گھسے پٹے کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ فٹبال کھیلو گے؟ اس لڑکے نے جواب دیا، میں اپنے پاس دستیاب سب سے بہترین کپڑے اور جوتے پہن کر آیا ہوں اور مجھے یقین ہے آپ جب مجھے کھیلتا ہوا دیکھیں گے تو آپ میرے لباس کو بھول جائیں گے۔
اور پھر اس دن کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے سنہری اوراق کا حصہ بن گیا، اس ٹرائل کے بعد اس لڑکے نے اس موقعے کو انتھک محنت سے اپنے حق میں کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، کامیابیوں پر کامیابیاں سمیٹتے ہوئے اس نے وہ عروج حاصل کر لیا جو لاکھوں لوگوں کا مرتے دم تک خواب ہی رہتا ہے۔
اچھا اب بات یہ ہے کہ سینکڑوں لوگ، غربت، نامساعد حالات اور گھر والوں کی پابندیوں کے باوجود گلیوں محلوں میں سیکھتے ہوئے ایک دن اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر کامیابیاں سمیٹت ہی لیتے ہیں، تو سادیو مانی کی اس کامیابی میں کیا خاص بات ہے؟
سادیو مانی کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ جس دن وہ کوئی بڑی کامیابی اپنے نام کرتا ہے اسی دن مسجد کے بیت الخلا کو صاف کرتا ہے کہ کہیں میں اپنا ماضی بھول نہ جاؤں اور اپنے لوگوں سے قطع تعلق نہ ہو جاؤں۔ کئی ٹرافیاں، میڈل اور ایوارڈ اپنے نام کرنے کے بعد اس نے اپنی دولت میں اپنے علاقے کے غریب لوگوں کو حصہ دار بنا لیا۔ اس کا ماننا ہے کہ کامیابی میں سب سے پہلے جس کو یاد رکھا جانا چاہیے وہ اس شخص کا گاؤں ہونا چاہیے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک میچ سے قبل لوگوں نے دیکھا کہ اس کے پاس ایسا موبائل فون ہے جس کی سکرین ٹوٹی ہوئی تھی، اس بات نے میڈیا کی توجہ حاصل کر لی تو اس کا کہنا تھا کہ
میں نے بھوک برداشت کی، میں نے کھیتوں میں کام کیا، میں اتفاقی طور پر جنگوں کا چارہ بننے سے بچ گیا، میں ننگے پاؤں فٹ بال کھیلتا تھا، نہ میرے پاس کوئی تعلیم تھی اور نہ دیگر بہت سی چیزیں، لیکن آج میں فٹ بال سے جو کچھ کماتا ہوں، اس سے میں اپنے لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ میں نے اسکول بنائے، ایک اسپتال بنایا، انتہائی غربت میں رہنے والے لوگوں کو کپڑے، جوتے، کھانا فراہم کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ، میں سینیگال کے ایک انتہائی غریب علاقے میں تمام لوگوں کو ماہانہ 70 یورو دیتا ہوں۔
مجھے مہنگے لباسوں، قیمتی گھڑیوں، موبائل فون، فینسی کاروں، فینسی ولا، سفر کرنے کے لیے پرائیوٹ ہوائی جہازوں وغیرہ کو خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس کے بجائے یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنے لوگوں کو تھوڑا سا وہ مہیا کر سکوں جو زندگی نے مجھے دیا ہے۔ اس نے اپنے علاقے کے ہر بے روزگار کے لیے ماہانہ 70 ڈالر وظیفہ مقرر رکھا ہے جو اس کی جانب سے انہیں باقاعدگی سے ملتا رہتا ہے۔
اس نے اپنے علاقے کے لوگوں میں دنیائے فٹ بال کی مہنگی ترین جرسیاں مفت بانٹیں، امتیازی نمبر لینے والے طلبا و طالبات کو لیپ ٹاپ اور فی کس 400 ڈالر دیے۔
کرونا وبا کے دنوں میں اس نے حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہوئے 41000 پاؤنڈز کا عطیہ دیا۔
پرائمری اسکولوں کے لیے 250، 000 پاؤنڈز کا عطیہ دیا۔
اپنے مرحوم باپ کی یاد میں خیراتی ہسپتال تعمیر کیا۔
اس کے ان گنت رفاہی اور فلاحی کاموں کے لیے اسے تاریخ کے سب سے پہلے "سقراط ایوارڈ" سے نوازا گیا تھا۔
سقراط ایوارڈ ایک سالانہ فٹبال ایوارڈ ہے جو کسی چیمپئن فٹبالر کے انسانی ہمدردی کے کاموں کا اعتراف کرتے ہوئے دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ برازیل کی قومی ٹیم کے لیجنڈ، برازیل کے فٹ بال کھلاڑی اور ڈاکٹر سقراط برازیلیرو سمپائیو ڈی سوزا ویرا ڈی اولیویرا کے نام پر رکھا گیا ہے، جسے عام طور پر صرف "سقراط" کے نام سے جانا جاتا ہے۔