Pehla Computer Virus
پہلا کمپیوٹر وائرس
منی ہائسٹ سیزن تھری کے اندر پاکستانی ہیکرز کو دکھایا گیا ہے، کہ یہ بہترین اور پروفیشنل لوگ ہیں۔ اس سے مجھے یاد آگیا کہ، کمپیوٹر وائرس کی تاریخ کے سرخیل بھی دو پاکستانی بھائی ہیں، جو کمپیوٹر وائرس کے موجد و امام ہیں۔ دنیا میں بننے اور استعمال ہونے والے تمام کمپیوٹر وائرس اور اینٹی وائرس، ان کے بنائے ہوئے وائرس سے بعد کے ہیں۔ جو نہیں جانتے ان کے لیے تفصیل ہے۔ پاکستان پنجاب، لاہور کے رہائشی دو بھائیوں باسط علوی اور امجد علوی نے یہ وائرس اسوقت تیار کیا تھا، جب دونوں بھائیوں کی عمریں بالترتيب سترہ سال اور چوبیس سال تھیں۔ ان کا کمپیوٹر سافٹویئر کا کاروبار تھا۔
1986 کے آس پاس کی بات ہے، یہ سافٹ وئیر کو فلاپی ڈسک کے اندر کاپی بنا کر فروخت کرتے تھے۔ اپنی فلاپی ڈسک کے اندر یہ ایک وائرس بھی رکھ دیتے تھے، جو ان کے آئیڈیا کے مطابق تو بے ضرر تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ جب ان کی فلاپی ڈسک سے کوئی آگے مزید کاپی کرنا چاہے، تو وہ ایسا نہ کرسکے۔ کیونکہ انکو پتا چل گیا تھا کہ، ان کے کام کو آگے مزید کاپی کر کے فروخت کیا جاتا ہے، جس سے انکے کاروبار کا متاثر ہونا یقینی تھا۔ اس کے بعد انہوں نے جو وائرس بنایا تھا، اس سے اگر کوئی انکے سافٹویئر کو کاپی کرلیتا تو اسکا کمپیوٹر سسٹم، کاپی اور اصل فلاپی دونوں کرپٹ ہوجاتے تھے۔
اس وائرس کا پتا یوں چلا کہ، یہ 1986 کی بات ہے جب امریکا کی ڈیل وئیر یونیورسٹی کے طالبعلموں کو کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے عجیب و غریب علامات سے سامنا ہونے لگا۔ یہ تمام علامات یا کمپیوٹر سسٹم میں ظاہر ہونے والی پرابلمز ایسی تھیں جو انکی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں، جیسے عارضی طور پر میموری ختم ہوجانا، سست ڈرائیو اور دیگر۔ بعد میں پتا چلا کہ اس سب کے پیچھے پہلا پرسنل کمپیوٹر وائرس ہے، جسے اب برین کے نام سے جانا جاتا ہے جو میموری کو تباہ کرنے کے ساتھ، ہارڈ ڈرائیو کو سست اور بوٹ سیکٹر میں ایک مختصر کاپی رائٹ میسج چھپا دیتا تھا۔
2011 میں فن لینڈ کی ایک اینٹی وائرس کمپنی، ایف سیکیور کو دیئے گئے انٹرویو میں دونوں بھائیوں نے اس بگ کو"دوستانہ وائرس" قرار دیا تھا۔ جس کا مقصد "کسی ڈیٹا کو تباہ"کرنا نہیں تھا اور اسی وجہ سے وائرس کوڈ پر ان کے نام، فون نمبر اور دکان کا پتا بھی موجود تھا۔ کچھ سال پہلے ایک انٹرویو میں امجد علوی نے بتایا، اس کے پیچھے بس یہ خیال تھا کہ اگر پروگرام کی غیرقانونی کاپی بنائی جائے، تو وائرس لوڈ ہوجائے۔ دونوں بھائیوں نے وائرس کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے کے لیے طریقہ کار بھی مرتب کیا، جس میں ایک کاؤنٹر سسٹم رکھا، تاکہ تمام کاپیوں کو ٹریک کرسکے اور معلوم ہوسکے کہ انہیں کب بنایا گیا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے، کہ یہ وائرس اتنا پھیل جائے گا کہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوجائے گا، مگر ٹائم میگزین نے ستمبر 1988 میں اس حوالے سے ایک تفصیلی جائزہ رپورٹ جاری کی، بلکہ میگزین کور بھی وائرسز کے نام پر تیار کیا جس میں کچھ پیچیدہ پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ میگزین کے مطابق یہ دونوں بھائی اپنے سافٹ وئیر کی چوری کے حوالے سے جتنے بھی فکرمند تھے، مگر خود دیگر مہنگے پروگرامز جیسے لوٹس 1، 2، 3 کی کاپیاں فروخت کررہے تھے اور ان کا موقف بھی کافی دلچسپ تھا کہ، کمپیوٹر سافٹ وئیر کو پاکستان میں کاپی رائٹ تحفظ حاصل نہیں، تو بوٹ لیگ ڈسکس کی تجارت کوئی پائریسی نہیں۔
اسی جواز کے تحت دونوں بھائی صاف کاپیاں پاکستانیوں کو فروخت کرتے، جبکہ وائرس سے متاثرہ ورژن امریکی طالبعلموں اور سیاحوں کو۔ جب یہ امریکی شہری واپس گھر پہنچ کر پروگرامز کی کاپی بنانے کی کوشش کرتے، تو وہ ہر اس فلاپی ڈسک کو انفیکٹ کردیتے جو وہ اپنے کمپیوٹرز میں لگاتے، وہ ڈسکس بھی جس کا اوریجنل پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ ڈیل وئیر یونیورسٹی کے بعد برین وائرس دیگر یونیورسٹیوں میں سامنے آیا اور پھر اخبارات تک جاپہنچا۔ یہ وائرس ان دونوں بھائیوں کے کاروبار کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ ان کی کمپنی برین نیٹ پاکستان کی چند بڑی انٹرنیٹ سروسز پروائڈرز میں سے ایک ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران امجد علوی نے کہا، یہ وائرس اس وقت تک نہیں پھیل سکتا تھا جب تک لوگ سافٹ وئیر کو غیرقانونی طور پر کاپی نہ کرتے۔ دونوں بھائیوں کے مطابق انہوں نے وائرس سے متاثرہ سافٹ ویر کی فروخت 1987 میں ختم کردی تھی، اور اب بھی اسی پتے پر موجود ہیں جو برین کوڈ پر دیا گیا تھا۔ ٹی آر ٹی ورلڈ کے ایک مضمون کے مطابق، درحقیقت اب کمپیوٹر وائرسز کی تاریخ پاکستانی برین کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
کیونکہ اس سے ہی بیشتر پروگرامرز کو اینٹی وائرس سافٹ وئیر تحریر کرنے کا خیال آیا، جن میں سرفہرست نام آنجہانی جان میکافی کا ہے، جو اینٹی وائرس سافٹ وئیر کمپنی کی بدولت کروڑ پتی بنے تھے، اور وہ پاکستانی بھائیوں کو جینیئس قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا، میں نے سان جوز مرکری نیوز میں اس بارے میں پڑھا اور سوچا کہ آخر انہوں نے ایسا کیسے کیا؟ کسی نے بھی کبھی سافٹ ویر کو بیکٹریا اور وائرسز کے طور پر استعمال کرنے کا نہیں سوچا تھا، یہ ایک جینیئس آئیڈیا تھا۔