Manzar Ka Mutaliq
منظر کے متعلق
جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے، وہ سچ نہیں ہوتا، جو کچھ دماغ دکھاتا ہے، وہ حقیقت نہیں ہوتی۔ ہمارے ارد گرد قصے کہانیاں ہیں، خواہشات کے گھڑے ہوئے منظر ہیں، وہ ہماری آنکھ کو ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ جیسے کہانی کار اور منظر نگار دکھانا چاہتے ہیں۔ دماغ وہی کچھ بتاتا ہے۔ جو ہم سوچتے ہیں کہ یہ فلاں چیز ہوسکتی اور دماغ اس تخیل کو فورا گھڑ کر ہمارے سامنے لے آتا ہے کہ ہاں ہاں یہ وہی ہے۔
جو تم دیکھ اور سمجھ رہے ہو، مگر درحقیقت ایسا ہوتا نہیں آنکھ اور دماغ انسانی خواہش کے تابع رہتے ہیں، وہ انسانی خواہش کو حقیقت کا روپ عطا کر دیتے ہیں اور پھر ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں۔ جو پہلے سے ہمارے ذہن میں ہوتا ہے۔ آنکھ کی اپنی زبان ہوتی ہے اور دل کی اپنی، یہ دونوں الگ الگ فریکوئنسی سے رابطہ کرتے ہیں تو ہمارے دیکھنے اور سمجھنے میں خلل واقع ہوتا ہے۔
ہم کسی چیز کے اصل پہلو کے ادراک سے محروم رہتے ہیں۔ یہ سمجھنا واقعی اہم ہے کہ ہم حقیقت کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ڈارٹ ماؤتھ کالج کے ریسرچ پروفیسر اور کینیڈا کے گلنڈن کالج کے سینئر فیلو نیورو سائنسدان پیٹرک کیواناگ کہتے ہیں۔ "ہم ایک ایسا منظر دیکھ رہے ہیں۔ جو ہمیں دکھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یعنی ہم اپنی خواہش اور ارادے سے کیا دیکھنا چاہتے ہیں، وہ منظر ڈھونڈنا کار دشوار ہے۔
اس لیے آنکھ اور دماغ اس مشکل سے بچنے کے لیے سب اچھا ہے کی رپورٹ بنا کر شعور کے خانے میں جمع کرا دیتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہم ہر دکھائی دینے والی چیز کے متعلق واہمے کا شکار ہو جائیں، بلکہ حقیقت اور وہم کا جہاں ملاپ ہوتا ہے اور جہاں جدائی ہوتی ہے۔ ہمیں اس نقطے کو تلاش کرکے اپنی بصارت و بصیرت اور قوت ادراک کو مضبوط بنانا ہے۔
اگرچہ ہم اکثر دماغ اور آنکھ کے مقابلے کے حوالے سے سوچتے ہیں، لیکن ریٹنا دراصل دماغ کا ہی حصہ ہے۔ جو بھی منظر ہماری آنکھ دیکھتی ہے، وہ روشنی کی صورت سفر کرتا ہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ منظر کی روشنی ہماری آنکھوں کے سامنے سے داخل ہوتی ہے، پھر ریٹنا کے پچھلے حصے میں فوٹو ریسیپٹرز تک سفر کرتی ہے۔ نیورو سائنس کی ماہر اور ہیلتھ سائنس یونیورسٹی کہ ڈائریکٹر خاتون سوزانا مارٹنیز کونڈے وضاحت کرتی ہے۔
کہ یہ وہی مقام ہے جہاں روشنی کا ترجمہ ہوکر منظر دماغ کے کینوس پر بکھرتا ہے (یا تکنیکی اصطلاح استعمال کرنے کے لیے "منتقل" کیا جاتا ہے) آنکھ اور دماغ کے درمیان رابطے میں گڑ بڑ کہاں ہوتی ہے؟ ہمیں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ ہم ویسے کا ویسا ہی کیوں دیکھتے ہیں؟ ہم اس کی حقیقت دیکھنے پر اصرار کیوں نہیں کرتے؟ ہم تصویر کا دوسرا پہلو کیوں نہیں کھوجتے؟
ان سب کے مختلف اور کئی جوابات ہیں، مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اس میں دماغ کی سہل پسندی اور شارٹ کٹ کی عادت کا بڑا دخل ہے۔ جو دماغ کے پراسیس کو روک کر محض آنکھوں پر بھروسہ کافی سمجھتا ہے۔ آنکھ اور دماغ کے درمیان کبھی بھی ایک بہترین کمیونیکیشن کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ وہم کے اندر سے حقیقت اور حقیقت کے اندر سے واہمے کو الگ کرنے کے لیے ہجوم سے الگ ہوکر کھڑا ہونے اور سوچنے کی مہارت درکار ہے۔
مثلا آپ کے ہاتھ میں دودھ کی بوتل اور گوشت کا پیکٹ ہے، اب ان چیزوں کو ایک بلی کس نظر سے دیکھ رہی ہے، ایک بھوکا بچہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے، کھانا پکانے کی منتظر ایک خاتون کس نظر سے دیکھ رہی ہے، یا پھر سڑک کنارے بیٹھا بے گھر شخص کس نظر سے دیکھ رہا ہے، بلی سمیت ان سب کا ایک جیسے منظر کو دیکھنے اور سمجھنے کا زاویہ اور نکتہ نظر کیا ایک جیسا ہے؟
دیکھنا ہی یقین اور ایمان ہے نا؟ ٹھیک ہے، اصل میں، آپ جو دیکھتے ہیں اور جو آپ سوچتے ہیں کہ آپ دیکھتے ہیں وہ مختلف چیزیں ہیں۔ آپ کے حواس معلومات جمع کرتے ہیں اور آپ کے دماغ کو بھیجتے ہیں۔ لیکن آپ کا دماغ صرف ان معلومات کی بنیاد پر کام نہیں کرتا ہے - یہ دنیا کے بارے میں پہلے سے موجود معلومات کو شامل کرکے کچھ نیا دکھانے کا دھوکا دیتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی جب وہاں نامکمل معلومات ہوتی ہیں تو آپ کا دماغ خالی جگہوں کو اپنی طرف سے پُر کر دیتا ہے، یا ایسی تصویر بناتا ہے، جو وہاں منظر میں ہوتی ہی نہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ارتقاء اور بقا کا انحصار تیز ترین رد عمل پر ہے۔ آپ کا دماغ تیزی سے کام کرنے کے لیے بنا ہوا ہے، جو بھی فوری معلومات بٹس یا ٹکڑوں کی شکل میں مل سکتی ہے۔
اسے لیکر باقی کا اپنی طرف سے پتا لگانے کی پوری کوشش کرتا ہے اور پھر تحت الشعور میں پہلے سے موجود کسی تصور میں ردو بدل کرکے نیا دکھا دیتا ہے۔ اگر اس بات کا ثبوت چاہتے ہیں کہ آپ کا دماغ پردے کے پیچھے کر رہا ہے؟ تو پوسٹ میں منسلک تصویر کو دیکھیں، کسی مشین کے پرزوں کی مانند گھوم رہی ہے نا؟ اب اپنی نگاہیں اس تصویر کے درمیان نقطے پر کچھ دیر تک جما کر رکھیں، تصویر کا گھومنا آہستہ آہستہ رکتا جائے گیا؟
مگر یہ تصویر تو پہلے سے ہی ساکن ہے، یعنی یہ تصویر ہے ویڈیو نہیں۔ مگر آنکھ نے اسے کیسے دیکھا اور پھر دماغ تک پیغام کیسے پہنچایا، پھر دماغ نے کیا نتیجہ نکالا۔ بصری واہمے یا نظری دھوکے ضروری نہیں کہ ساری کارستانی آنکھ کی ہوتی ہے، اس میں زیادہ حصہ دماغ کا ہوتا ہے، جو قائل کر لیتا ہے کہ منظر کے متعلق، جو کچھ بتا رہا ہوں یہی سچ ہے اور اسی پر یقین رکھو۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات و ترجمہ پلس ذاتی تڑکا۔