Hum Kahan Bas Rahe Hain?
ہم کہاں بس رہے ہیں؟
ہو سکتا ہے دوزخ یا جہنم کو سورج پر قائم کیا گیا ہو۔ مختلف فلکیاتی نظریات اور سائنسی اتفاق رائے کے مطابق قابل مشاہدہ حیرت انگیز کائنات 20 بلین سال پرانی ہے۔ اس وسیع الشان کائنات میں تحیر میں مبتلا کر دینے والی 200 بلین کہکشائیں ہیں اور اس لامتناہی وسعت میں ہر کہکشاں کے اپنے الگ بلین، ٹریلین ستارے اور دیگر اجرام فلکی ہیں۔
اس حیرت کدے میں کچھ ان دیکھی جہتیں بھی ہیں جہاں کشش ثقل جیسی مگر قوت اور طاقت میں ثقلی گرفت سے کئی گنا بڑھ کر ہیں جو روشنی سمیت کئی اجرام فلکی کو مسلسل ہڑپ کیے جارہی ہیں، کائنات میں یہ وہ واحد جگہیں ہیں جہاں روشنی داخل ہوجائے تو واپس نہیں پلٹ سکتی۔ انہیں بلیک ہول کا نام دیا گیا ہے۔
ہماری زمین جس کہکشاں میں واقع ہے اسے ملکی وے کہتے ہیں، صرف ملکی وے کے اندر 100 سے 300 بلین ستارے ہیں جو کسی نامعلوم ساز پر غیر مرئی رقص میں مشغول ہیں۔ ہر لحظہ ستارے مرتے اور نیا چمکدار وجود پاتے رہتے ہیں۔ ان بلین ستاروں میں سے 3200 ستاروں کے پاس ایسا نظام ہے جس میں ان کے پاس اپنے مدار اور مرکز ہیں جس میں لیل و نہار ان کی آہم آہنگ گردش جاری ہے۔
پوری کاسموس کے ان 3200 ستاروں میں سے فقط ایک ہی ستارے کے پاس ایسا نظام ہے جو باقی نظاموں سے مختلف ہے اور وہ ہے نظام شمسی۔ نظام شمسی سے مراد یہ ہے کہ ہماری کہکشاں پر موجود سورج نے براہ راست یا بالواسطہ طور ثقلی گرفت کے ذریعے دیگر سیاروں کو ایک مخصوص مدار میں گردش کرنے پر پابند کیا ہوا ہے۔
کائنات کے اس واحد منفرد اور شاندار نظام شمسی میں 1 ستارہ، 8 سیارے، 146 چاند اور 1 سے 2 بلین تک چھوٹے سیارچے اور دیگر اجرام فلکی شامل ہیں۔ نظام شمسی کا اکلوتا ستارہ سورج ہے اور اس کے گرد گھومنے والے 8 سیاروں میں ایک سیارہ زمین بھی ہے۔ جس پر ہماری مانوس بودوباش ہے۔
20 بلین سال پرانی کائنات میں نظام شمسی سورج اور زمین سمیت تقریباً 4.6 بلین سال پہلے وجود میں آیا تھا۔ یوں ہماری زمین کی عمر بھی 4.6 بلین سال بنتی ہے۔ نظام شمسی میں سورج، چاند، زمین اور دیگر 7 سیارے مدار میں انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے رقصاں ہیں جسے مدار کے گرد گردش کا نام دیا جاتا ہے جس کے لیے تمام سیارے کششِ ثقل کے محتاج ہیں۔
ہماری کہکشاں کا منفرد اور آسمانی کائنات کا قابلِ فخر اکلوتا ستارہ سورج رنگ میں پیلا چمکدار اور خاصیت میں گرم ترین ستارہ ہے۔ جس کے مرکز میں درجہ حرارت 27 ملین ڈگری فارن ہائیٹ اور کناروں پر 9000 ڈگری فارن ہائیٹ سے بھی زیادہ ہے۔
زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ 93 ملین میل یا 150 ملین کلومیٹر کا ہے اور زمین کے قطر سے سورج کا قطر 109 گنا بڑا ہے۔
نظام شمسی کی حدود سے ماورا کائنات کو خطہ ہائے بعید کہا جاتا ہے، اس کے متعلق ابھی تک محتاط اندازوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر رسائی نہیں ہے۔ زمین کے قریب ترین سیاروں میں عطارد، مریخ اور زہرہ ہیں اور اس کے علاوہ باقی مشتری، زحل، یورینس، نیپچون ہیں۔ سینکڑوں ملین کلومیٹر کی دوری کے باوجود سورج کی تپش کو براہ راست برداشت کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
زمین پر زندگی کا سب سے بڑا ماخذ سورج ہے۔ نباتات وحيوانات کی زندگی کی حرارت ہو یا جمادات کا وجود حرارت سورج سے مشروط ہے، سورج کی حدت زمینی زندگی کو قائم رکھے ہوئے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ سورج مزید 5 ارب سال تک اپنا الاؤ روشن رکھ سکا تو تمام گولا سرخ رنگت میں ڈھل جائے گا۔
خوردبینی مشاہدات کے حساب سے زمین پر موجود ایٹم وہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہے جسے ننگی آنکھ سے دیکھنا ناممکن ہے، ہمارا سیارہ زمین کتنا بڑا ہے مگر کائنات کے اندر اس کا حجم کائنات کے ایک ایٹم سے بڑھ کر نہیں ہے۔