Danishmand Log
دانشمند لوگ
ہندوستانی قدیم لوک دانش کی ایسی کہانی جسے پہلی بار بارہ سو سے پندرہ سو سال قبل مسیح بُنا گیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کہانی کو ہندوستان سے باہر، بدھ مت، جین مت مذاہب اور دنیا کے دیگر خطوں میں حکمت و دانائی سے بھرپور زبردست کہانی کے طور پر اپنایا گیا۔ مختلف زبانوں اور علاقوں کا سفر کرتے ہوئے، اس کہانی کو قلم کاروں اور قصہ خوانوں نے اپنے اپنے رنگ اور انداز میں پیش کیا۔
جس کی وجہ سے مختلف زبانوں میں اس کے مختلف ورژن ملتے ہیں۔ موجود زمانے میں اس ہندوستانی کہانی کا سب سے مشہور اور زبردست ورژن ایک نظم کی صورت میں محفوظ ہے۔ جسے انیسویں صدی میں امریکی شاعر جان گوڈفری نے لکھا تھا۔ آپ شاید پہلے سے اس کہانی سے واقفیت رکھتے ہوں، لیکن میں اس کہانی کے مختلف ورژنز کے امتزاج سے اردو زبان میں ترجمہ کرکے آپ کی خدمت میں ہندوستان کی قدیم لوک کہانی کو نئے انداز میں پیش کررہا ہو۔
اس کہانی سے آپ جانیں گے کہ کیسے سنی سنائی بات محض رائے ہوتی ہے۔ حقیقت نہیں، اور دیکھی گئی چیز فقط دکھائی دینے والا ایک پہلو یا ایک زاویہ ہوسکتا ہے مکمل سچ نہیں۔ آپ جانیں گے کہ بین الثقافتی آگاہی کیسے حاصل ہوتی ہے، اور مختلف پہلوؤں پر ایسے مختلف نکتہ نظر جو سچے اور حقیقی ہونے کے باوجود اختلاف و تقسیم کا باعث کیسے بنتے ہیں۔
زمانہ قدیم کی بات ہے، ہندوستان کے کسی گاؤں میں ایسے چھ لوگ رہتے تھے۔ جو پیدائشی طور پر مکمل نابینا تھے۔ گاؤں کے دوسرے لوگ ان نابینا افراد سے محبت اور احترام سے پیش آتے اور انہیں ہر قسم کے نقصان سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔ چونکہ نابینا افراد دنیا کو خود دیکھنے سے قاصر تھے، اس لیے وہ دنیا کے تمام عجائبات کے متعلق لوگوں کی باتیں سن کر تصور قائم کرلیتے تھے کہ فلاں چیز فلاں شکل کی ہوگی۔
گاؤں سے باہر کی دنیا کو جاننے کے لیے وہ قصہ خوانوں اور مسافروں کی محفلوں میں بیٹھتے، ان کی کہانیوں کو غور سے سنتے اور کسی چیز کا تصور اپنے ذہن میں واضح کرنے کے لیے سوالات کرتے۔ اسی طرح انہوں نے ہر سنی سنائی بات کے متعلق ایک تصور بنا رکھا تھا۔ اور وہ چیزوں کو انہی تصوراتی پیمانوں میں جانچتے رہتے تھے۔ یوں تو ان نابینا افراد کو کہانی کے ہر کردار کا اصل روپ سمجھنے میں تجسس تو رہتا ہی تھا۔
مگر گاؤں میں چھڑی ایک نئی بحث کے متعلق وہ تجسس کے ساتھ ساتھ نہایت فکر مند بھی تھے، کیوں کہ ان کے ذہن میں لوگوں کی باتوں اور سمجھانے کے باوجود اس کہانی والے جانور کی شکل کا تصور واضح نہیں ہو پارہا تھا۔ ہوا یوں کہ ریاست کے مہاراجہ نے اپنی شہزادی کی سواری کے لیے کسی دور دراز کی ریاست سے ہاتھی منگوایا تھا اور اسی ہاتھی کا ذکر اب زبان زد خاص و عام تھا۔
گاؤں والوں نے ہاتھی پہلی بار دیکھا تھا، اس لیے ان کے لیے وہ کسی عجوبے سے کم نہیں تھا۔ گاؤں والوں نے تو مہاراجہ کی حویلی میں جاکر ہاتھی کو دیکھ لیا تھا، مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ چھ نابینا افراد نہ تو دیکھ سکتے تھے اور نہ گاؤں والوں کے سمجھانے سے سمجھ رہے تھے کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ گاؤں والے انہیں سمجھاتے کہ ہاتھی بہت بڑا ہوتا ہے، جنگلوں کو روند سکتا ہے، بھاری بوجھ اٹھانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
وہ جب اپنی اونچی بھیانک آواز میں چنگھاڑتا ہے تو، نوجوانوں، بوڑھوں اور حتیٰ کہ دوسرے جانوروں تک کو خوفزدہ کردیتا ہے۔ چھ نابینا افراد یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ جب مہاراجہ کی بیٹی اس پر سواری کرسکتی ہے تو وہ جانور اتنا خطرناک کیسے ہوسکتا ہے؟ ، اور مہاراجہ کیونکر اپنی شہزادی کو اتنے خطرناک جانور کے قریب بھی جانے دے گا؟
اب دن رات ان کے پاس ایک ہی موضوع ہوتا کہ مہاراجہ کا ہاتھی کیسا ہوگا؟ سنی سنائی باتوں سے وہ خود ہی قیاس آرائیاں کرتے، اور کہتے اگر وہ اتنا خطرناک ہے تو پھر ہاتھی کے بجائے طاقتور دیو ہوگا۔ ایک اندھا شخص کہتا نہیں نہیں میں نے کہانیوں میں سن رکھا ہے کہ زمانہ قدیم میں جنگلوں کو صاف کرنے اور رستہ بنانے کے لیے ہاتھیوں کا استعمال ہوتا تھا اور وہ ایک جانور ہی ہے۔
دوسرا کہتا نہیں ایسا ویسا کچھ بھی نہیں ہے، تم غلط ہو، اگر شہزادی اس کی پشت پر سوار ہوکر بے خوف و خطر سفر کرتی ہے تو یقیناً ہاتھی خوبصورت اور بھلامانس جانور ہوگا۔ تیسرے نے کہا، بھائیو میں نے سن رکھا ہے کہ ہاتھی نیزہ نما جانو ہوتا ہے۔ جس کے برچھی نما دانت اتنے لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں کہ وہ سیدھا انسان کے دل کا نشانہ لیکر اس کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔
چوتھا کہنے لگا دوستو مہربانی کرو اور خوف نہ پھیلاؤ، ہاتھی محض ایک بڑی گائے کے مشابہ ہے، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے، گاؤں کے لوگوں کو عادت ہے کہ بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ پانچواں کہنے لگا یقیناً ہاتھی کوئی جادوئی چیز ہے، جو مختلف روپ دھار کر شہزادی کو بحفاظت سیر کراتی ہے۔ آخری اندھا شخص کہنے لگا، میں تو سرے سے اس بات کا انکار کرتا ہوں کہ ہاتھی نامی کوئی جانور وجود بھی رکھتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ گاؤں کے چالاک لوگوں نے ہم اندھوں کو بھیانک مذاق کے ساتھ بیوقوف بنایا ہے۔ آخر کار گاؤں کے لوگ ان اندھوں کی فضول بحث اور الزام تراشیوں سے تنگ آگئے، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان اندھوں کو مہاراجہ کے دربار میں لے جایا جائے اور وہاں انہیں کہا جائے کہ ہاتھی کو چھو کر دیکھ لو کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ گاؤں والوں نے مہاراجہ سے اجازت لی۔
اور گاؤں کے ایک نوجوان شخص کی معیت میں ان چھ اندھوں کو مہاراجہ کے دربار کی طرف روانہ کر دیا۔ ایک اندھے شخص نے اس راہنما نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر اسی طرح باقی اندھوں نے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اپنے سے اگلے اندھے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسی طرح اس نوجوان کی راہنمائی میں چلتے ہوئے مہاراجہ کے محل میں پہنچ گئے۔
وہاں ان کا استقبال ان کے ہم عمر شخص اور گاؤں کے پرانے دوست نے کیا، جو مہاراجہ کے جانوروں کی دیکھ بھال کا کام کرتا تھا۔ ان کا دوست انہیں حویلی میں اس طرف لے گیا، جہاں ہاتھی بندھا ہوا تھا۔ سارے نابینا افراد اس مخلوق کو چھونے کے لیے آگے بڑھے، جو ان کی شب و روز بحث کا مرکز و موضوع تھی۔ پہلا نابینا شخص آگے بڑھا اور اس مخلوق کو چھوا، جہاں سے اس نے چھوا وہ ہاتھی کا پہلو تھا۔
اس نے فوراً باآواز بلند کہا کہ ہاتھی تو کسی دیوار کی طرح ٹھوس اور ہموار ہوتا ہے۔ دوسرے اندھے کا ہاتھ ہاتھی کی سونڈ پر پڑا اور وہ اسے جانچتے ہوئے کہنے لگا، ہاتھی تو ایک بڑے سانپ جیسا ہوتا ہے۔ تیسرے اندھے کے ہاتھ میں ہاتھی کا لمبا اور نوکیلا دانت آیا تو وہ کہنے لگا، میں پہلے دن سے ہی صحیح تھا، یہ مخلوق نیزے کی انی کی طرح تیز اور مہلک ہے۔
چوتھے اندھے نے ہاتھی کی ایک ٹانگ کو پکڑا اور کہنے لگا، یہ فقط ایک بڑی گائے ہے۔ پانچویں اندھے کے ہاتھ میں ہاتھی کے کان ائے تو وہ انہیں اچھی طرح محسوس کرکے کہنے لگا، بڑے بڑے پنکھ جو پہاڑوں اور درختوں کی چوٹیوں پر اڑنے والے قالین جیسے ہیں، یہ واقعی کوئی جادوئی سواری ہے۔ چھٹے نابینا شخص نے جہاں ہاتھ رکھا وہ ہاتھی کی دم تھی اس نے ہاتھوں کے ساتھ ٹٹول کر دیکھا اور اعلان کرنے کے انداز میں کہا۔
یہ تو پرانی اور بیکار جھولتی ہوئی رسی کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ہونہہ بڑا خطرناک جانور ہے، اس نے طنز کرتے ہوئے کہا۔ مہاراجہ کے نوکر نے اپنے دوستوں کو کہا کہ تم طویل سفر کرکے آئے ہو، یقیناً تھک گئے ہو، آؤ یہاں اس درخت کی چھاؤں میں بیٹھو، میں تمھارے پینے کے لیے مشروب لے کر آتا ہوں۔ ان کا دوست انہیں وہاں بٹھا کر چلا گیا، اور وہ انتظار کرنے کے دوران اپنے پسندیدہ موضوع کو پھر سے چھیڑ بیٹھے۔
ہاتھی دیوار کی طرح ہوتا ہے، " پہلے اندھے نے کہا۔ "یقیناً ہم اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں۔
ایک دیوار؟ ایک ہاتھی ایک بڑا سانپ ہے" دوسرے اندھے نے جواب دیا۔
یہ ایک نیزہ ہے، میں آپ کو بتاتا ہوں، " تیسرے اندھے نے اصرار کیا۔
مجھے یقین ہے کہ یہ ایک دیو ہیکل گائے ہے، چوتھے اندھے نے کہا۔
جادو کا قالین۔ اس میں کوئی شک نہیں، پانچویں اندھے نے کہا۔
دیکھتے نہیں؟ چھٹے اندھے نے التجا کرتے ہوئے کہا۔ کسی نے ہمیں دھوکہ دینے کے لیے رسی کا استعمال کیا ہے۔
ہر اندھے کا خیال تھا کہ اس نے جو محسوس کیا وہی سچ تھا اور باقی اندھے اس کے ساتھ جھوٹ بھول کر اس کی بات کو رد کررہے ہیں۔ ان کی بحث جاری رہی اور ان کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی گئیں۔
"دیوار!" "سانپ!" "برچھی!" "گائے!" "قالین!" "رسی!"
چلانا بند کرو" محل کے اندر سے غصیلی آواز آئی۔ یہ مہاراجہ تھا جو اندھوں کے شور شرابے کی وجہ سے اپنی نیند سے بیدار ہوا تھا۔ سارا قصہ سن کر مہاراجہ نے پوچھا۔ تم میں سے ہر ایک کو پختہ یقین کیسے ہو سکتا ہے کہ بس وہ اکیلا ہی صحیح ہے؟ چھ کے چھ اندھوں نے مہاراجہ کے سوال پر غور کیا، اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ مہاراجہ بہت عقلمند انسان ہے، وہ اس کے سامنے خاموش ہی رہے۔
ہاتھی بہت بڑا جانور ہوتا ہے، مہاراجہ نے شفقت اور نرمی سے کہا۔ ہر آدمی نے صرف ایک حصے کو چھوا اور اسی اپنے حصے کو مکمل سچ مان لیا۔ جو تم نے محسوس کیا وہ سچ تھا بلاشبہ تم سب سچے ہو، لیکن مکمل سچ صرف اس صورت ظاہر ہوگا، جب تم لوگ تمام حصوں کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں گے، تب ہی آپ کو اصل حقیقت نظر آئے گی۔
اور اس طرح مکمل سچ جانے بغیر ادھورے اور اپنے حصے کا سچ منوانے پر اصرار نہیں کریں گے۔ سچائی جزوی طور پر سچ ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ حتمی سچ نہیں ہوسکتا۔ امید ہے تم سب میری بات سمجھ گئے ہو، اس لیے اب مزید شور شرابا نہیں ہونا چاہیے، گھر جاؤ اور مجھے سکون سے نیند پوری کرنے دو۔ جب ان کا دوست ٹھنڈا پانی لے کر حویلی میں واپس آیا تو سارے اندھے مہاراجہ کی نصیحت کے بارے میں سوچتے ہوئے خاموشی سے سستا رہے تھے۔
مہاراجہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، ایک اندھے نے کہا۔ مکمل سچ جاننے کے لیے ہمیں تمام حصوں کو ایک ساتھ رکھنا چاہیے۔ آئیے گھر واپس چلتے ہوئے سفر کے دوران اس پر بات چیت کرتے ہیں۔ ایک اندھے نے نوجوان لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا جو ان کو واپس گاؤں لے جانے کا پابند تھا۔ دوسرے اندھے نے اپنے دوست کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسی طرح چھ اندھے آدمی ایک دوسرے کے پیچھے سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ ختم شد
حتمی سچائی کی صرف ایک ہی شکل ہوتی ہے، مگر دانشمند لوگ اپنے علم و تجربات کی بنیاد پر اس حتمی سچائی کے مختلف پہلوؤں کو مختلف انداز میں دریافت کرکے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے اور اختلاف رائے کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ہم دوسرے پہلوؤں سے لاعلمی کی وجہ سے اپنے حصے کا سچ ہی مکمل اور حتمی سچ سمجھتے ہیں۔