Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Akrasia

Akrasia

اکراشیا

ہم منصوبے بناتے ہیں، ڈیڈ لائن طے کرتے ہیں، اور اہداف و مقاصد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کا عزم کرتے ہیں، لیکن پھر ان پر عمل کرنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ انسان اپنے رویوں اور ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے صدیوں سے الجھتا چلا آ رہا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کے عظیم ترین دماغ بھی روزمرہ کی زندگی کے خلفشار سے محفوظ نہیں رہے۔ درحقیقت یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ اور دیرپا ہے کہ سقراط اور ارسطو جیسے قدیم یونانی فلسفیوں نے اس قسم کے رویے کو بیان کرنے کے لیے ایک لفظ Akrasia ایجاد کیا۔

اکراشیا کا مطلب ہے کہ آپ نے کسی مقصد کے حصول کے لیے جو فیصلہ اور ارادہ کر لیا ہے اب اس ارادے کو ناکام بنانے کے لیے کوئی دوسری قوت اس پر کام کر رہی ہے۔ مثلاً آپ نے ایک انتہائی اہم کام کرنا تھا، مگر آپ اچانک غیر ارادی طور پر کوئی دوسرا غیر اہم کام کرنے لگتے ہیں اور اس دوران آپ کو ادراک بھی ہوتا ہے کہ آپ کو تو اس وقت کچھ اور کرنا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ akrasia تاخیر یا قوت ارادی کی کمی کا نام ہے۔ ڈھیلی ڈھالی تعریف اور ترجمہ کریں تو اکراشیا کو سستی کاہلی، کام کو آخری وقت تک کرنے یا نہ کرنے کے لیے ٹالتے رہنا، یا بغیر کسی وجہ کے حد درجہ تاخیر کرنے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

اکراشیا ہماری زندگیوں پر کیوں حکمرانی کرتا ہے اور تاخیر کی قوت ہمیں اپنی طرف کیوں کھینچتی ہے؟ اس کی ایک وضاحت کا تعلق انسانی رویے کی نفسیاتی اصطلاح سے ہے جسے "time inconsistency" "وقت کی عدم مطابقت" کہا جاتا ہے۔ وقت کی عدم مطابقت سے مراد انسانی دماغ کا رجحان ہے کہ وہ فوری انعامات کو مستقبل کے انعامات سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

ہمارے دماغ طویل مدتی نتائج اور انعامات پر فوری نتائج اور جلد حاصل ہونے والے انعامات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ذہنی رجحان کو دیکھتے ہوئے، ہمیں کام کرنے کے لیے اکثر دیوانہ وار حکمت عملیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ارسطو نے enkrateia کی اصطلاح کو akrasia کے متضاد کے طور پر وضع کیا۔ akrasia سے مراد تاخیر کا شکار ہونے کے ہمارے رجحان کی طرف ہے، اور enkrateia کا مطلب ہے اپنے مستقبل کے کاموں کو ڈیزائن کرتے ہوئے مثبت قوت ارادی اور متعدد حکمت عملیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تاخیری رجحان کو شکست دیتے ہوئے "خود پر قابو پانا"۔

اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دنیائے ادب میں ایسا کون ہے جو وکٹر ہیوگو اور اس کے لازوال ادبی شہکار The Hunchback of Notre Dame کے نام سے واقف نہیں ہوگا؟

وکٹر ہیوگو Akrasia کا شکار رہا، مگر پھر اس نے enkrateia کے مطابق انہی دیوانہ وار حکمت عملیوں کا سہارا لیا اور ایسی تخلیق میں کامیاب رہا جس کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا، فلمیں اور ڈرامے بنے۔

1830 کے موسم گرما میں وکٹر ہیوگو کو ایک ناممکن ڈیڈ لائن کا سامنا تھا۔ بارہ مہینے پہلے، فرانسیسی مصنف نے اپنے پبلشر سے ایک نئی کتاب کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن لکھنے کے بجائے، اس نے اس سال کا زیادہ تر وقت دوسرے پروجیکٹس، مہمانوں کو مدعو کرنے، دوستوں کے ساتھ گھومنے ​​اور اپنے کام کو دیگر طریقوں سے تاخیر کرنے میں صرف کیا۔ پبلشر نے مصنف کے لاپرواہی والے رویے سے مایوس ہو کر، ہیوگو کو چھ ماہ سے بھی کم وقت کی فائنل تاریخ مقرر کرکے معاہدہ ختم کرنے کی آخری وارننگ دے دی۔ ڈیڈ لائن کے مطابق کتاب کو ہر صورت فروری 1831 تک ختم ہوکر شائع ہونا تھا۔

ہیوگو نے اپنی تاخیر کو شکست دینے کے لیے ایک عجیب منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنے تمام ملبوسات اکٹھے کیے اور ایک ملازم سے کہا کہ وہ انہیں ایک ایسی بڑی الماری میں بند کر دے جسے کسی کی مدد کے بغیر کھولا نہ جا سکے۔ اس کے پاس ایک بڑی چادر اور عام گھریلو لباس کے علاوہ پہننے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ باہر جانے، دعوتیں اڑانے کے لیے مناسب لباس نہ ہونے کی وجہ سے وہ پڑھنے لکھنے میں مگن ہوگیا اور 1830 کے موسم خزاں اور سردیوں کے دوران اپنے تخیل اور مشاہدے کی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے The Hunchback of Notre Dame لکھ ڈالا، یہ تاریخ ساز ناول 14 جنوری 1831 کو ڈیڈ لائن سے دو ہفتے پہلے شائع ہوا۔

اس مضمون کو لکھنے کے لیے JAMES CLEAR کی کتاب Atomic Habits سے استفادہ کیا گیا ہے۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari