Ab Unhe Dhoond Charagh e Rukh e Zeba Le Kar
اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
نقطے سے نقطے ملا کر لکیر بنانا پھر اس لکیر سے قصہ کہانی کو اخذ کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
میری عادت ہے کہ میں ہر کام کے پیچھے اس کے اسباب اور وجوہات کی کھوج ضرور کرتا ہوں۔ ایسی ہی کھوج مجھے لے گئی ہے جرمنی میں جہاں پر دوسری جنگ عظیم برپا ہے۔ جہاں کئی گھر بمباری کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوگئے وہاں ایک ایسا گھر بھی تھا جس کے مکین تو بچ گئے مگر گھر تباہ ہوگیا۔ اس گھر کے سربراہ کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد اس جگہ پر سویت یونین کا قبضہ ہوگیا، جنگ زدہ علاقوں میں ہر طرح کی سہولیات کا فقدان ہونے کی وجہ سے اس گھر کے بچ جانے والوں میں سے سب سے چھوٹا بچہ (لڑکا) فوت ہوگیا۔
پانچ بہنوں میں سے چوتھے نمبر والی لڑکی ان تمام بدقسمت حالات کو گہرائی سے دیکھ رہی تھی، جنگ اور بھائی کی موت نے اسے میڈیکل اور مذہب کے قریب کر دیا۔ اس گھرانے نے سویت یونین کے قبضے والے حصے سے ہجرت کی اور دوسرے حصے میں چلے گئے، وہاں اس لڑکی نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور گائنی ڈاکٹر بننے کے بعد، اس نے اپنا وقت مہاجرین کے کیمپوں میں جا کر اپنی خدمات پیش کرنے اور جنگ سے متاثرہ مقامی لوگوں کی مدد کرنے کے لیے وقف کر دیا۔
اسی دوران مذہب کے ساتھ اس کا شدید لگاؤ اسے کیتھولک چرچ تک لے گیا، جہاں بعد میں لائسنس یافتہ "نن" بننے کے بعد اس نے Society of Daughters of the Heart of Mary میں شمولیت اختیار کر لی جس کا واحد مقصد دنیا بھر کے لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ کچھ چیزیں انسان کے اختیار میں ہوتے ہوئے بھی جب کسی انسان کے اندر خدا کسی مقصد کا بیج بو دیتا ہے تو پھر بات انسانی اختیار سے آگے نکل کر خدا کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے پھر وہ اپنی مرضی سے اسے چلاتا ہے، جسے انسان جھٹلا نہیں سکتا۔
کیتھولک چرچ اور سوسائٹی آف ڈاٹرز نے اسے انسانیت کی خدمت کے لیے بطور نن جنوبی بھارت کے مشن پر روانہ کیا تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ خدا نے اس کے لیے کیا لکھ رکھا تھا۔ نقطے تو بن رہے تھے مگر ان کا ملنا اور واضح لکیر کا بننا ابھی باقی تھا۔ یہ 1960 کی بات ہے وہ جرمنی سے تو آگئی مگر ویزہ مسائل کی وجہ سے اسے بھارت میں داخلہ نہ مل سکا، تو اسے مجبوراً پاکستان کے شہر کراچی میں عارضی طور پر قیام کرنا پڑا۔ ویزہ مسائل طوالت اختیار کر گئے اور اس کا قیام بھی طویل ہوتا چلا گیا۔
اس کا مقصد تو لوگوں کی بھلائی تھا، سو اس نے سوچا بھارت ہو یا پاکستان اس سے کیا فرق پڑتا ہے، باقاعدہ ڈاکٹر تو وہ پہلے سے تھی اس لیے اس نے وہاں مقامی ڈسپنسریوں میں جانا شروع کر دیا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک ڈسپنسری میں ایک شخص تقریباً رینگتا ہوا داخل ہو رہا ہے جس کی جلد زخموں سے بری طرح متاثر تو تھی ہی، مگر اس کے ہاتھوں، پاؤں اور کپڑوں پر مٹی کے ساتھ جو غلاظت لگی ہوئی تھی لوگ اس سے کراہیت بھی محسوس کر رہے تھے اور ایسا تاثر بھی دے رہے تھے جیسے یہ سب معمول کی بات ہو۔
اس کی زندگی یوں تو پہلے سے ہی خدا اور اس کے بندوں کے لیے وقف ہو چکی تھی، مگر اس مریض کو دیکھ کر اس کی زندگی نے نیا رخ اختیار کیا، اس نے بھارت جانے کا خیال دل سے نکال دیا، کیوں کہ وہ جان چکی تھی کہ خدا نے اسے پاکستان میں کسی خاص مقصد کے لیے روک لیا تھا اور اس کی زندگانی کا خاص اسے مل چکا تھا۔ وہ مریض جذام کے مرض میں مبتلا تھا اور لوگ ایسے مریضوں کو کوڑھی کا مریض کہہ کر اچھوت بنا دیتے تھے۔
اس نے بڑے پیمانے پر ان مریضوں کے لیے کام کرنا شروع کر دیا، پھر تھوڑی مدت کے بعد وہ واپس جرمنی گئی اور وہاں سے اس بیماری کے متعلق کورس کرنے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آ گئی۔ 1963 میں، اس نے میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر قائم کیا۔ اس کلینک میں پورے کراچی اور پاکستان کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک افغانستان کے لوگ بھی آتے تھے۔ یہ اسی عظیم عورت کا کارنامہ ہے کہ پاکستان جیسا پسماندہ ملک جسمانی کوڑھ کے مرض سے تقریباً مکمل طور پر شفا یاب ہوگیا۔ 1979 میں، انہیں پاکستانی حکومت کی وزارت صحت اور سماجی بہبود میں جذام کے بارے میں وفاقی مشیر مقرر کیا گیا۔
1988 میں پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں پاکستانی شہریت دے دی۔ خدا نے فرشتوں کو تخلیق کرکے آسمانوں میں رکھ لیا، مگر فرشتوں جیسی صفات دے کر کچھ ہستیوں کو ماؤں کی صورت زمین پر بھیج دیا۔ انہی میں سے وہ بھی ایک تھی۔ لوگ اس عظیم عورت کو پاکستانی مدر ٹریسا کے نام سے جانتے تھے، مگر دنیا اسے ڈاکٹر رتھ فاؤ کے نام سے جانتی تھی۔ اور اسے زندگی بھر اپنے نام کی خواہش ہی نہیں رہی تھی کہ اسے کس نام سے پکارا جانا چاہیے۔
عظیم لوگ تعارف، تعریف اور خراجِ تحسین کے محتاج نہیں ہوتے نہ ہی ہماری داستانوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ لفظوں اور سکرینوں سے باہر نکل سکیں، مگر پھر بھی کچھ لفظوں کو معتبر ہونے کے لیے کسی عظیم انسان کی کہانی کا حصہ بننا پڑتا ہے، اور اپنے الفاظ کا قد کاٹھ بڑھانے کی خاطر میرے پاس خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چند حروف ہی تو سہارا ہیں۔