Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tehmina Mukhtar
  4. Qibla e Awwal Aur Musalman

Qibla e Awwal Aur Musalman

قبلہ اول اور مسلمان

اچانک سے ایک بار پھر خبر آتی ہے کہ اسرائیل کا فلسطین پر جارحانہ حملہ آور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم اور بربریت ڈھا رہا ہے آخر کیوں؟ کیوں کر اسرائیل اب 260 فلسطینی شہید کر چکا ہے جن میں 60 سے زیادہ معصوم کلیاں جو ابھی تک سہی سے کلی بھی نہیں تھی اسرائیلی جارحیت نے معصوم بچوں سے والدین کا سایہ ماؤں سے جوان لختِ جگر چھین لیے میں ایک مسلمان پاکستانی شہری ہوں ایسا ملک جو نظریہ کی بنیاد پر بنا جو نظریہ اسلام ہےاور یہ ہی وجہ ہے کہ ابھی تک پاکستانی قوم اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے حالانکہ کے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم بھی اسرائیل کو قبول کریں آخر کیوں عرب امارات ترکی تک نے اسرائیل کو تسلیم کیا؟

کیا ہم مسلمان ممالک بھول گئے تھے کہ اسرائیل مسلمان پر کس قدر ظلم ڈھا رہا ہے اگر بھول بھی گئےتو کیا اب بھی 56 مسلم ممالک کا ضمیر نہیں جاگا؟ کیوں ترکی؛ پاکستان زبانی کلامی مزمت کر رہے ہیں جب کہ یہ دونوں ہی بڑی عسکری قیادتیں ہیں آخر آبادی میں لاہور سے بھی چھوٹا ملک دنیا پہ قابض ہو کر بیٹھا ہے ہمیں تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل فلسطین پر قابض ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل پوری مسلمانوں پر قابض ہے کہاں ہیں وہ انسانیت کے علمبردار جو مسلمانوں کو پاکستان کو دہشت گرد کہتے تھے؟ کیا ان کو اسرائیلی دہشتگردی نظر نہیں آتی یا پھر دیکھنا نہیں چاہتے کیا وہ دیکھ نہیں رہے کے فلسطین پر کیا ظلم کیے جا رہے؟

مسجد اقصٰی کیا صرف فلسطینیوں کی ہے؟ کیا وہ صرف زمین کے ٹکڑے کے لیے شہید ہو رہے ہیں؟ نہیں! نہیں مسجد اقصٰی پوری امت مسلمہ کے لیے تحفہ ہے یہ وہ مقدس مسجد ہے جہاں سے حضرت محمد ﷺ اللہ تعالٰی سے ملاقات کیلئے معراج کو پہنچے یہ وہ سر زمین ہے جہاں پر انبیائےکرام نے نمازیں ادا کی اس مقدس مسجد کی حفاظت محض فلسطینیوں پر فرض نہیں ہے اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے مگر مسلمان نظریہ اسلام سے ہٹ کے محض جغرافیائی حدود تک سمٹ کر رہ گئے نظریہ پہ قائم ملک تو کبھی بھی اسرائیل کو قبول نہیں کریں گے مگر جغرافیائی حدود والے قبول کریں گے اور کر چکے ہیں اسرائیلی جغرافیائی حدود ہر سال بڑھا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے نظریات کو لے کرچل رے ہیں اور ایٹمی پاور رکھنے والے مسلمان خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کبھی کبھی تو یہ دیکھ اور سوچ کہ حیرت ہوتی ہیں کہ ہمارے ملک کو چلانے والے تو سب پیسے کے پوجاری ہیں جو صرف اور صرف ملک کو لوٹنے کے غرض سے آتے ہیں کوئی بھی نظریہ پاکستان پہ کام نہیں کرتا سب سیاستدانوں کا ایک نظریہ ہوتا وہ ہے پیسہ ایسے لو گ مسجد اقصٰی کو کیا آزاد کروائیں گے۔

اسمبلی میں بیٹھ کر خاتون جن کو نبی کریم ﷺ صحیح سے بولنا نہیں آرہا تھا وہ دین کا درس دیتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ مسجد اقصٰی یہودیوں کی ہے اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کیا جب نبی کریم کو حکم ہوا کہ وہ اب خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں اور اس کا مطلب ہے کہ مسجد اقصٰی اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو دی ہے ان کے بیان سے تو صاف ظاہر ہے کہ ان محترمہ کو دین سے آگاہی نہیں ہے یہ تو پیسے کی خاطر اپنا ایمان بیچ بیٹھی ہیں۔ ہم کس کے دین کے علمبردار نہیں ہے مگر غلط کو غلط کہیں گے کیونکہ کے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان یہود پر غلبہ حاصل کریں گے مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے بس یہ بات یاد رکھیں کہ اسلام امن کا دین ہے اور صبر کرنے کا حکم دیتا ہے مگر اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم مسلمانوں پر ظلم برداشت کر یں گے اسلام کی خاطر جہاد کرنا مسلمان پر فرض ہے56 مسلم ممالک کو اب جاگنا ہو گا یہ ممالک کے مسلمان حکمران اللہ تعالیٰ کو روزِ محشر کیا جواب دیں گے کیا ہم اللہ تعالیٰ کاخوف نہیں رکھتے قرآن کریم میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ کافر کبھی بھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا پھر بھی عرب ممالک بھرپور انداز میں کافروں سے تعلق رکھتے ہیں انسانیت کے نام پر جب ایک کافر کی مدد کی جا سکتی ہے تو کیا یہ عرب اب سو رہے ہیں؟

کیا ان کو مسجد اقصی نظر نہیں آتی،؟ کیا وہ چیخیں سسکیاں سنائی نہیں دیتی؟ پہلے بھی عربوں ہی کی وجہ سے ہم نے مسجد اقصٰی کو کھو دیا اور اب بھی وہ دن دور نہیں کہ جب عربوں پر زوال آئے گا بس ہمیں یہ کہہ کر بےوقوف بنایا جا رہا ہے کہ ہم خفیہ طور پر جہاد کر رہے ہیں دعا ہے کہ یہ سچ ہو ہم مسلمانوں کو اب ہوش سنبھالنے کی ضرورت ہے وہ دن دور نہیں کہ جب ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں یوں مگن ہیں کہ جیسے کے ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا کیسے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مسجد اقصٰی کے فرش خون سے لہو لہان ہیں ہم ان کی تکلیف سمجھ ہی نہیں سکتے ہمیں کیا پتا کے آزادی کیا ہے کیونکہ کے ہمیں تو ا آزاد وطن طشتری میں ملا ہے مسلمانوں اب بھی وقت ہے سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر اپنے آپ کو پہچانو اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کرو وہ وقار جو مسلمانوں نے اپنے ہاتھوں سے کھویا ہے۔

Check Also

Common Sense Ki Baatein, Mufeed Tips

By Amir Khakwani