Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Jang Ka Bukhar

Jang Ka Bukhar

جنگ کا بخار

بچپن میں ایک لطیفہ سنا کرتے تھے کہ سرحدوں پہ تعینات فوجیوں کو چھٹی ملنا بھی کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ ایسے کسی ایک موقعے پہ جوان نے چھٹی مانگی تو صاحب ابھی نئے نئے تعینات ہوئے تھے انہوں نے براہ راست تو انکار نہ کیا اور معاملہ نپٹانے کو شرط رکھ دی کہ دشمن کا ٹینک لے آوَ تو چھٹی چلے جاوَ۔ جوان سلیوٹ مار کے نکل گیا اور چند گھنٹوں بعد آن دھمکا کہ جناب ٹینک حاضر ہے، براہ مہربانی چھٹی کی درخواست منظور کی جائے تو افسر نے حیرانی سے پوچھا کہ اتنی جلدی ٹینک کیسے آگیا۔ جوان کہنے لگا کہ کبھی کبھی وہ بھی چھٹی کے لئے ہمارا ٹینک مانگ کے لے جاتے ہیں اور یوں کبھی ہم بھی مانگ لیتے ہیں۔

چھٹی کی یہ بات تو از راہ تفنن ہی درمیان میں آن کودی جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری مشرقی سرحدوں کے پار ہونے والے چناوَ (الیکشن) اور سرحدوں پہ تناوَ کا آپسی ربط بہت پرانا، قابلِ فہم اور بنئیے کی پرانی روایت ہے۔ راحت اندوری نے اس پہ خوب گرہ لگائی کہ:

سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا

کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا

فروری 2019ء میں جب سرحدوں پہ تناوَ کی صورتحال تھی تو اس وقت جنگ بجنگ کے نام سے اک پوسٹ کی تھی لیکن ذہنی، قلبی اور جذباتی کیفیت کچھ اور تھی۔ آج پھر جب دشمن کی طرف سے ایک بڑی جنگ ہم پہ مسلط کی جا رہی ہے تو ذہنی، قلبی اور جذباتی کیفیت ویسی ہی عود آئی ہے۔ کل کی چہل قدمی میں بھی چہل پہل کی بجائے پژمردگی، دُکھ اور افسوس کا احساس غالب رہا۔ رات بھی جیسے تیسے مردے کی طرح پڑے گزر گئی۔ صبح سے خبروں کے لئے سکرین پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا کی تازہ ترین خبریں ہوں یا سوشل میڈیائی جنگجووَں کے تبصرے، واٹس ایپ چینلز کی اپڈیٹس ہوں یا پرنٹ میڈیا کی شہہ سرخیاں۔۔ یہ سب پل پل کی خبریں اور معلومات تو پہنچا رہی ہیں لیکن دلی کیفیت ہنوذ وہی ہے۔

یہ کیسی کیفیت ہے؟ یا جذبات کی کون سی لہر ہے؟ اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ اس ساری واردات کا موجب کیا ہے؟

کہنے کو تو زیادہ نہیں بس اڑھائی دہائیوں پرانا لمحہ ہے لیکن جب جب سرحدوں پہ ایسی واردات ہوتی ہے تو یہاں ایسی ہی کیفیت آن وارد ہوتی ہے۔ گوجرانوالہ محض اپنے کھابوں ہی کے لئے مشہور نہیں وہاں دیکھنے اور پرکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ بالخصوص جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ۔ اپنے تئیں بڑے خوش خوش گروپ میں بیٹھے تھے اور ساتھ موجود لڑکوں سے منتخب ہو جانے پہ مبارکبادیں بھی وصول کر رہےتھے اور ساتھ ہی گھروں کو روانگی کا بھی منصوبہ ترتیب پا رہا تھا۔ سب سے پہلے گلے میں باندھی ٹائی سے جان چھڑانا ضروری سمجھا۔ ابھی ٹائی کی آخری گرہ کھلی ہی تھی کہ آواز گونجی:

چیسٹ نمبر ففٹی فائیو ری انٹرویو۔

یا خدا ابھی تو ری انٹرویو بھگتا کے آیا ہوں اور یہ ایک اور ری انٹرویو؟ امتحان چاہے جیسا بھی آسان ہو، تیاری کیسی بھی اچھی کیوں نہ ہو لیکن ایک دفعہ تو پیٹ میں تتلیاں اڑتی ہیں۔ لڑکوں نے شُرلی چھوڑی کہ "بھائی تجھے یہیں سے سیدھا بارڈر پہ بھیجیں گے اور دے سوالوں کے جواب"۔ خیر ٹائی تو کھل چکی تھی، باندھنے کا نہ وقت تھا اور نہ ہی دل کر رہا تھا۔ ایک انجانا سا اعتماد تھا کہ ایسے حاضری کو بار بار نہیں بلایا جا رہا شاید "وچوں گل کوئی ہور ہے"۔ کیا پتا منتخب ہونے پہ بھجوائی جانے والی چھٹی بنفسِ نفیس دینے کا ارادہ رکھتے ہوں۔

ایسی ہی بہت ساری سوچوں کے ساتھ کمانڈنٹ کے کمرے میں داخلے کا اذن ملا۔ بڑی سی میز کے آرپار کمانڈنٹ صاحب کے سامنے بیٹھتے ہی اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ دو افسران صوفوں پہ میری دونوں اطراف موجود تھے۔ جو شاید حرکات و سکنات پہ نظر رکھنے کو تھے۔ وہاں بھی پطرس بخاری صاحب کی بات یاد آ گئی کہ "حرکات تو انہی کی ہوں گی، ہماری تو صرف سکنات ہوں گی"۔ کمانڈنٹ نے روایتی قسم کے سوالات سے آغاز کیا۔ میرے والد کی فوجی زندگی اور پیشہ وارانہ مہارت پہ بات ہوئی۔ مستقبل کے منصوبوں اور ترحیجات پہ بات ہوئی۔

اچانک کمانڈنٹ کا لہجہ بدلا، بہت ہی شفیق انداز سے سمجھانے لگے کہ سب نصابی اور غیر نصابی ٹیسٹس میں درکار قابلیت میں پاس ہونے کے باوجود بھی کیونکر محض ایک معمولی نکتے پہ انتخاب کی آخری حد عبور نہیں ہو سکی۔ گفتگو کے آخر میں کمانڈنٹ نے کھڑے ہو کے ہاتھ ملایا اور مستقبل میں کامیابی کے لئے نیک تمناوَں کا اظہار کیا۔ اُس امتحاں گاہ سے تو نکل آیا لیکن جب جب ایسی صورتحال ہوتی ہے تب تب ایک امتحاں سا درپیش لگتا ہے کہ اگر اس دن منظوری ہوئی ہوتی تو آج سرحدوں کی حفاظت، مادرِ وطن کی ناموس اور دفاعِ مملکت میں دلیری، بہادری اور جواں مردی سے جذبہ شہادت سے سرشار، جذبہ ایمانی سے لبریز اپنے اسلاف کی روشن و تابندہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری کی گونج میں دشمنوں کی صفوں کو تہس نہس کر دینے اور سب سے بلند مرتبت مقام اور اعلیٰ و ارفع شہادت کے رتبے تک پہنچنے کی حسرت بھی پوری ہو جاتی۔

دشمن ہمیشہ اپنی طاقت پہ نازاں ہوا کرتا ہے اور اپنی عددی برتری پہ غرور کرتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں کبھی صرف تعداد سے نہیں جیتی جاتیں۔ بدر کے فقط تین سو دشمنوں کے کئی سینکڑوں پہ بھاری تھے اور کیسے کربلا کے بہتر رہتی دنیا تک حق کی نشانی بن گئے۔ اللہ کی جانب سے فتح و نصرت یقیناً انہی کے ساتھ ہے جو اس کے نام لیوا اور اس کے نام پہ شہادت پانے والے ہیں۔ جب جب سکرین پہ فوجیوں کا نعرہ تکبیر گونجتا ہے دل سے بے اختیار اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے۔ خون میں وہی جوش و جذبہ ابلتا ہے لیکن اب تو حسرتوں پہ بھی حسرت ہے۔ سرحدوں پہ عملاً کچھ نہ کر سکنے کا غم من کو بے چین رکھتا ہے اور کل سے خون کی حدت اور دورانگی بڑھ چکی کہ جنگ کا بخار سر چڑھ کے بول رہا ہے۔

Check Also

Meri Takmeel Aap Se Hai

By Syed Tanzeel Ashfaq