Zindagi Tamasha Bani, Dunya Da Haasa Bani
زندگی تماشا بنی، دنیا دا ہاسہ بنی
ابا کے کمرے میں پڑی میز پہ پڑا ریڈیو سارا دن بجتا رہتا۔ اماں کھانا بنا رہی ہیں، ابا نماز پڑھ رہے ہیں، چڑیاں ابا کا ڈالا ہوا باجرہ چگ کر خوشی سے چہچہا رہی ہیں، آپا کتاب پڑھ رہی ہیں، بھائی کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں، چھوٹی ابا کی سائیکل ٹانگوں کی قینچی ڈال کر چلا رہی ہے اور منجھلی گنگنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وے سب توں سوہنیا، ہائے وے من موہنیا۔ میں تیری ہوگئی، پیار وچ کھو گئی۔
جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں، میں تھاں مر جانی آں، ہائے ہائے۔
تیرے نال نال نال وے میں رہنا، میں تیرے ہان دی، دنیا جان دی۔
ہر کسی کی اپنی دنیا اور اس دنیا کا پس منظر ریڈیو سے نشر ہوتے گیت!
کسی بھی دوست کے گھر اگر محفل موسیقی ہو تو سب جانتے ہیں کہ ہماری فرمائش کیا ہوگی؟
کچھ کا خیال ہے کہ رنگین ماضی کا کوئی قصہ ہمیں چین نہیں لینے دیتا۔ کوئی سراغ لگانا چاہتا ہے کہ عمر کی پانچویں دہائی میں پہنچ کر ایسے معنی خیز گیت کیوں؟ کس کو اشارہ ہے بھئی؟
انسان ارسطو بن جائے یا علامہ، ہر کسی کے اندر ایک مدفن ہوتا ہے۔ یادوں، کہانیوں، باتوں اور وقت کی سمادھی! اوجھل، مقفل، تہہ در تہہ، گرد آلود، شکستہ لیکن مجاور کے لئے دنیا کا سب سے بڑا خزانہ۔۔ مجاور اس سمادھی کا طواف کرتا ہے جب بھی غم روزگار سے فرصت ملے۔۔ پلک جھپکتے میں وہ وہ دروازہ کھول لیتا ہے جو سمادھی کی طرف لے کر جاتا ہو۔۔ لیکن دروازے کی کنجی تو ہر وقت دسترس میں بھی نہیں ہو تی۔۔ کب ملے گی؟ کہاں؟ کیسے؟ یہ بھی علم نہیں ہوتا۔
شاید کوئی ایک پل، ایک بھولا بسرا لمحہ، کوئی ایک یاد جو اس وقت کو چشم نم پر تازہ کردے جو اب کبھی بھی کسی بھی قیمت پہ واپس نہیں آسکتا۔
اس تمہید سے جان لیجیے کہ ریڈیو سے سنے ہوئے یہ گیت ہمارے لیے وہ کنجی ہیں جو اس سمادھی کا دروازہ ہمارے لئے کھولتے ہیں جہاں امی ابا ہیں، کتابیں، صحن، چڑیاں، ریڈیو، گانے اور ہماری کم عمری!
زندگی تماشا میں خواجہ راحت کو دیکھ کر ہمیں ایسا لگا کہ وہ تو ہم ہی ہیں شاید۔۔ جس طرح ہم جڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں یادوں کی اس سمادھی سے، بالکل اسی طرح خواجہ راحت کو پرانی فلموں کے یہ گیت اس وقت میں لے جاتے ہیں جب وہ تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتے ہوئے باجی کا ہار گلے میں ڈال کر، امی کا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے آئینے کے سامنے ٹھمکے لگاتا تھا۔
وہ جو اب عمر کی اس سیڑھی پر پہنچ چکا جہاں تینوں بیٹیاں بیاہی جا چکیں۔ بیمار بیوی کے ساتھ دن رات بتاتے، غم روزگار سے نمٹتے ہوئے، اس زندگی کے پل صراط پر پچھلی زندگی کی فرحت آمیز ہوا اور خوشی میں سانس لینے کی کنجی صرف ایک ہے کہ اس کی طرف کھلنے والی کھڑکی کبھی کبھی کھول کر جھانک لیا جائے۔ پرانی فلمیں، اگلے جہان کو سدھاری ہیروئنیں، ان کے شہوت انگیز رقص اور بھولے بسرے گیت۔
ایک ایسا شخص جو مہربان شوہر، شفیق باپ، رحم دل ہمسایہ، ایماندار کاروباری، اچھا مسلمان، مذہب سے گہرے لگاؤ کے باعث مشہور نعت خواں بھی ہے!
خواجہ راحت سے کسی کو شکایت نہیں، بے ضرر انسان، لوگوں کی خوشیوں میں دل سے شریک ہونے والا، خواجہ سرا پہ رحم کھانے والا، بیوی کی خدمت کرنے والا، بیٹیوں کا خیال رکھنے والا، نیاز بنا کر بانٹنے والا، عشق رسول جس کا اوڑھنا اور روحانی وسیلہ۔
ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کیا ایسے شخص کو اپنے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کا حق بھی نہیں؟
ہمیں ابا یاد آگئے۔
پانچ وقت کے نمازی، تہجد گزار، شفیق باپ، محبت کرنے والے شوہر اور بیٹے، خاندان برداری کے لیے مددگار، بیٹیوں لیے انتہائی نرم خو، مہمان نواز، راہ چلتے لوگوں کے کام آنے والے، سخی اور دریا دل، سادہ، پرخلوص۔۔
لیکن ریڈیو پہ فلمی گانے سننے کے بے انتہا شوقین!
خود تو سنتے ہی ہیں مگر ساتھ میں کم سن بیٹیاں ہر طرح کا گیت سنتے ہوئے، گیت گانے کی بھونڈی پریکٹس کرتے ہوئے بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہیں لیکن ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں۔
اس زمانے میں ہم نے بہت لوگوں کو یہ کہتے سنا، عجیب آدمی ہے، نماز ایک نہیں چھوڑتا، حج کیا ہواہے لیکن ہر وقت فلمی گانے۔ ہونہہ وڈا حاجی تے نمازی!
کوئی نہیں جانتا کہ ابا کے اندر بنی کس سمادھی کی کنجی ان فلمی گیتوں میں رکھی تھی؟
سو زندگی تماشا بنی دیکھتے ہوئے بارہا خیال آیا کہ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر معصومیت اور بے خودی میں لگائے گئے ٹھمکے کیا اس قدر قابل گردن زنی تھے کہ خواجہ راحت کو زندہ درگور کر دیا جاتا؟
بات صرف اتنی نہیں کہ ایک نعت خواں نے فلمی گیت پر اٹھلا اٹھلا کر ٹھمکے لگائے، اور یار دوستوں، محلے والوں، خاندان، اور حتی کہ بیٹی تک کو برداشت نہ ہو سکے۔
اوپر کی پرت اتار کر دیکھیے تو نچلی تہہ میں ہمارا معاشرہ اپنے گلتے سڑتے وجود کے ساتھ نظر آتا ہے۔
خواجہ کو خاندان کی محفلوں سے نکال دینا، اس سے معافی کی وڈیو ریکارڈ کروانے کی کوشش کرنا، اس پہ آوازے کسنا، محفلوں میں اس کا مذاق اڑانا، اس کے ہاتھ کی بنی نیاز نہ کھانا، عید میلاد النبی پہ اسے نعت نہ پڑھنے دینا اور محفل سے نکال دینا۔
کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم فرد جرم سنانے میں بھی طاق ہیں اور سزا دینے میں بھی۔ کسی کی ذات کے ایک مخفی گوشے سے اگر ہم اتفاقاً واقف ہو جائیں تو اس کی سب اچھائیاں پس پشت ڈال کر اسے سولی پر مصلوب کرنے پہ تل جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں اس حمام میں سب ننگے ہیں، تب ہی تو مولوی اپنی طاقت کا ایک مظاہرہ یہ کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، لگاؤں گستاخی کا نعرہ، اور اس دھمکی کی لہو آشام حقیقت سے آج سب واقف ہیں۔
اور تو اور، خواجہ کی بیٹی بھی باپ سے متنفر نظر آتی ہے۔ وہ جو اس گھر میں بچپن سے یہ گیت سن کر پلی بڑھی ہے، وہ جسے باپ موٹر سائیکل پر میڈیا ہاؤس چھوڑنے جاتا ہے، جس پہ کسی قسم کی پابندی نہیں، وہ جو ماں اور باپ کی محبت کا احوال دن رات دیکھ رہی ہے۔ وہ بھی اس بحران میں باپ کے ساتھ کھڑے ہونے سے کترا رہی ہے۔ اس کے نزدیک باپ نے فحش انداز میں ڈانس کرتے ہوئے اسے لوگوں کے سامنے شرمندہ کروایا ہے۔
سوال پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ کون ہیں یہ لوگ؟ کیا اہمیت رکھتے ہیں یہ لوگ؟ جن کی خاطر بیٹی خواجہ جیسے باپ کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
خواجہ کی بیوی قصہ سنتی ہے اور نہ حیران ہوتی ہے نہ پریشان، وہ اپنے شوہر سے خوب واقف ہے کہ یہ اس کے ماضی کی کھڑکی ہے۔ تبھی وہ مسکراتے ہوئے پوچھتی ہے، اتنے موٹاپے کے ساتھ ڈانس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس پہ خواجہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے، کیا نہیں تھا، نکل گیا تھا۔
خواجہ کی سادہ لوحی، مہربان مسکراہٹ، بے خودی، فرخندہ بی بی سے الفت کا اظہار، خاص طور پہ جب وہ اس کے لمبے بال کنگھی کرتا ہے، دل موہ لیتے ہیں۔
لگتا ہے یہ کردار خواجہ کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔
کہانی سے قطع نظر، سرمد نے جن زاویوں سے فلم شوٹ کروائی ہے، ان کو دیکھ کر نظر ایک دم ٹھٹھک جاتی ہے اور ذہن سمجھ جاتا ہے کہ کیمرہ مین کو ہدایت دینے والا بلا کا فنکار ہے۔
محلوں اور مڈل کلاس کا کلچر چھوٹی چھوٹی باتوں سے جھلک رہا ہے۔ شادی بیاہ کے منظر، اخبار میں لپٹا چکن تکہ، زمین پہ بچھا بیٹی کا بستر، خواجہ کا گھر، سلامی کا حساب کتاب، گھر کی شادیوں میں کس کس کو بلایا گیا تھا کا ذکر، سمیعہ ممتاز کی اونی ٹوپی اور کلائی میں دو سونے کی چوڑیاں، میت کے دھجی سے بندھے ہوئے انگوٹھے، سردی کی شاموں میں ٹوپی اور چادر اوڑھے خواجہ، پرانے ماڈل کا ٹی وی، خواجہ کا بیوی کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل سے آگاہ کرنا، کیا کچھ بتائیں؟
بس دیکھ کر لگتا ہے کہ ہاں یہیں تو تھا ہمارا گھر، شاید خواجہ کے ہمسائے میں۔ لیکن اس وقت جب لوگوں پہ سزا سنانے کا جنون طاری نہیں ہوا تھا، جب انسان نے اپنے اوپر نقاب چڑھا کر جینا شروع نہیں کیا تھا، جب مذہب اوڑھنا بچھونا تو تھا مگر آرٹ اور کلچر بھی زندگی کا حصہ تھا۔ ہم الباکسانی نہیں بلکہ پاکستانی تھے۔
سرمد نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتا دیا ہے کہ گو اس جوہڑ میں سب ایک سے ہیں لیکن اپنے آپ کو نیکوکار اور دوسرے کو مجرم سمجھ کر سولی پر چڑھانے کی منافقت کھلے گٹر سے ابلتی گندگی جیسی بو دیتی ہوئی ہر طرف بہہ رہی ہے۔
جیتے رہو سرمد!