Zainab, Mehaz Chadar Ka Naam Nahi
زینب، محض چادر کا نام نہیں
عالیشان دربار، مغرور اور رعونت زدہ حکمران، مودب درباری اور زنجیر وں میں جکڑی قیدی عورتیں!
دربار ہو، اختیار ہو، طاقت ہو اور بہت ہو، جی حضوری کا مجمع ہو اور قیدی!
پر ان قیدیوں کی سالار، نہ سر جھکائے، نہ آنکھ جھپکائے، انداز میں وقار ہو اور ہو عورت!
برداشت نہیں ہو سکتا بھئی!
" کون ہے یہ مغرور عورت" بادشاہ کی آواز بلند ہوئی
"ان سے کیا پوچھتے ہو؟ مجھ سے پوچھو میں کون ہوں" عورت کی رعب آمیز آواز آئی۔
دربار چونک گیا، درباری سیدھے ہو بیٹھے۔ مکر و فریب اور ظلم کی دنیا، جہاں آنکھ کی جنبش پہ بڑے سے بڑے سورما کا سر اتر جاتا ہے وہاں ایک جنگ کے نتیجے میں سب مردوں کے قتل کیے جا نے کے بعد قیدی ہو کے آنے والی ادھیڑ عمر عورت اور یہ جرات رندانہ!
یہ ہے اسلام کی تاریخ کی پہلی جیدار، دلیر، بادشاہ وقت کے سامنے ڈٹ کے کھڑی ہونے والی عورت، حق اور سچ کی خاطر نہ جھکنے والی عورت، انتہائی عالی نسب عورت!
شہر اور گھر کا آرام چھوڑ کےمیدان جنگ میں اترنے والی، بھائی کی اذیت محسوس کرنے والی، اپنے دو بیٹوں کے سر کٹتے دیکھنے والی، سب مردوں کے قتل ہو جانے کے بعد سب عورتوں اور بچوں کو خیموں کی آگ سے بچانے والی۔
قیدی بنی، تشدد سہا، سفر کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حاکم دربار کے سامنے پہروں کھڑی رہی لیکن رہتی دنیا تک ایک سبق سکھا دیا کہ حق اور سچ کی قیمت چکانی پڑتی ہے چاہے آپ کا تعلق خانواده رسول سے کیوں نہ ہو۔
یہ تھیں سیدہ زینبؑ، فاطمہؑ کی بیٹی اور ہمارے رسول ﷺ کی نواسی، وہی رسول ﷺ جن کے نام پہ ہماری آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں لیکن ان کے خانوادے کےافراد کے ذکر سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت سے سوالوں کے جواب نہیں۔
آج چودہ سو سال بعد عورت کو تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ گھر کی زینت ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد فقط آبادی بڑھانا اور خاندان کو جوڑنا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ گھر سے باہر کے معاملات میں اس کا کوئی حصہ نہیں، اس کو آواز بلند کرنے کا کوئی حق نہیں، اس کے کر دار کی طاقت پہ کسی کو یقین نہیں۔
ملک، قوم، آئیڈیالوجی، کردار سازی، کسی بھی ہاری ہوئی جنگ کے بعد اپنے موقف پہ قائم رہنا، اپنے حق کے لئے لڑنا، دوسروں کے حق کے حصول میں ان کے ساتھ چلنا، سچ کی صلیب اٹھانا چاہے ہاتھ کٹ جائیں، یہ آج کی عورت کو نہ سکھایا جاتا ہے، نہ سمجھایا اور نہ ہی بتایا جاتا ہے اور اگر کوئی نادان پھر بھی سر پہ کفن باندھ لے تو اس کے گوش گزار کیا جاتا ہے کہ کیوں کانٹوں بھرے رستوں کا انتخاب کیا ہے؟ یہ کس دلدل پہ چل رہی ہو؟ زبان کی قیمت لو اور ہونٹ سی لو۔
آج کی عورت کو سیدہ زینبؑ کے کردار سے متعارف کروانا، جو کلمہ حق کے لئے نہ جھکے نہ بکے، کس قدر اہم ہے یہ وہی لوگ جانیں گے جو اس راہ کے مسافر ہیں۔ عورت کسی بھی معاشرے قوم اور آنے والی نسلوں کا کلیدی کردار، یہ صرف نظریاتی لوگ جانتے ہیں جو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی بھی ہوتے ہیں۔
جب ہر طرف قانون کی بےبسی ہو، جبر کے پنجے ہر طرف گڑے ہوں اور سچائی کا علم بلند کرنا ہو تو تاریخ کی مدد لے کے آہنی اعصاب والی عورتوں کو اپنا آئیڈیل ماننا اور ان کے نقش قدم پہ چلنا تربیت کا وہ حصہ ہے جسے آج کی ہر عورت کو سیکھنا ہے اور اپنی بیٹی کو سکھانا ہے۔
اگر عورت معاشرے کی آنکھ میں آنکھ نہیں ڈال سکتی، اگر اپنی عزت روندنےوالوں کا منہ نہیں نوچ سکتی، انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتی، سب کچھ لٹانے کے بعد بھی اونچی آواز میں نہیں بول سکتی تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں صدیوں کے سفر کا سب حال رہ جاتا ہے۔ تاریخ کا فیصلہ بھی سامنے آ جاتا ہے کہ ایک وقت کے ہارے ہوئے اصل میں ہیرو تھے اور وقتی جیت والے تاریخ کے تاریک کردار تھے۔