1.  Home/
  2. Blog/
  3. Tahira Kazmi/
  4. Waqt, Sarhadein Aur Maa Ke Dil Ke Taar

Waqt, Sarhadein Aur Maa Ke Dil Ke Taar

وقت، سرحدیں اور ماں کے دل کے تار

الارم بج رہا ہے، ٹرن ٹرن، ٹرن۔ کسلمندی سے کروٹ لیتے ہوئے سائیڈ پہ رکھے ہوئے موبائل فون کو ہم ادھ کھلی آنکھ سے دیکھتے ہیں جس سے موسیقی نما الارم کی آواز ہمیں جاگنے پہ مجبور کر رہی ہے۔

آہ، کس قدر بدل گیا وقت۔۔ کہاں گئیں سرہانے رکھی وہ بڑی سی گھڑیاں جن کی سوئی مروڑ کے الارم سیٹ کیا جاتا تھا اور وہ ایسی آواز میں بجتا کہ قبر میں پڑے مردے بھی جاگ جاتے۔ ہوسٹل میں ہماری روم میٹ قمر ایک ایسے ہی الارم کی مالک تھیں اور پانچ برس ہم اسی الارم کی بے سری آواز سے مستفید ہوئے۔

اور اب یہ ٹھنڈے میٹھے سروں جیسی گھنٹیاں ہمیں بیدار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ صبح کے ساڑھے پانچ بجے ہیں، چلیے ایک اور دن نصیب ہوا۔۔ ایک اور دن، مشقت، محبت، ریاضت، عداوت اور نہ جانے کس کس اور جذبے سے اٹا ہوا۔

نہیں معلوم کہ ہمارے حصے میں کیا کیا آئے گا؟ فون ہاتھ میں ہےاور اب ہماری بے تاب نظر کچھ اور شہروں کے وقت کا طواف کر رہی ہے۔ تین مختلف شہروں کا وقت جنہیں فون پہ ہم نے اپنے وقت سے جوڑ رکھا ہے۔

اچھا تو وہاں اس وقت شام کے ساڑھے پانچ بجے ہوں گے۔ یقیناً یونیورسٹی بند ہو چکی ہوگی اور وہ اپنے کندھے پہ بیک پیک ڈالے ہوسٹل کی طرف تیزی سے جا رہا ہوگا۔ ہمیں علم ہے کہ اس وقت اس کے سر پہ کیا دھن سوار ہوگی؟ کمرے میں پہنچتے ہی وہ بیگ ایک طرف رکھے گا، ٹریک سوٹ پہنے گا، جم کے بیک پیک میں پانی کی بوتل رکھے گا اور باہر کھڑی سائیکل لے کر چل پڑے گا۔

کیمپس میں آدھ پون گھنٹہ سائیکل چلانے کے بعد جم پہچ جائے گا جہاں آج کے لئے اس نے مختلف ورزشیں کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا ہوگا۔ ورزش کرتے ہوئے وہ ذہن میں کسی نہ کسی دھن کو ترتیب دے رہا ہوگا۔ لمبے گھنگھریالے بالوں کی پونی کندھوں پہ جھول رہی ہوگی۔ ورزش ختم کرکے جم کے ملازمین سے دس پندرہ منٹ بات کرتے ہوئے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کرے گا اور کچھ عجب نہیں کہ کسی کو رات کا کھانا کھانے کے لئے کچھ پیسے بھی دے دے۔

یہی تو وہ کرتا تھا یہاں بھی، جم سے واپسی پہ روزانہ اس کے پاس ایک کہانی ہوتی تھی۔ امی، جم مالکان ان ورکروں کو دو دو سال چھٹی نہیں دیتے۔۔ امی وہ اپنی تنخواہ گھر بھیج دیتے ہیں۔۔ امی وہ دن میں ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

سارے دن کی محنت کے بعد بھی معاوضہ اتنا کم؟ ہم چپ چاپ اسے دیکھتے رہتے۔ کیا کہتے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایسا ہی ہوتا ہے جس میں غریب محنت و مشقت کے باوجود بھوکا ہی رہتا ہے۔

ہماری نظر اب دوسرے شہر کے وقت کا طواف کر رہی ہے۔ اوہ وہاں تو شام کے ساڑھے آٹھ بج چکے، اس وقت باہر اندھیرا اور ٹھنڈ ہوگی کہ سرما شروع ہو چکا۔ وہ یونیورسٹی سے واپس آ کر آڑھی ترچھی بستر پہ لیٹی کچھ پڑھ رہی ہوگی، لیپ ٹاپ، کنڈل، کتابیں اور فون بستر پہ چاروں طرف پھیلے ہوں گے۔ پاس رکھی کرسی میز پہ بھی کتابوں کا ڈھیر ہوگا۔ پڑھتے پڑھتے بے خیالی میں انگلی کا ناخن منہ میں چبا رہی ہوگی۔ کھانے میں کچھ نہیں بنایا ہوگا کہ کچن میں جانا اسے شدید ناپسند ہے۔

اماں ہوتیں تو مسکرا کر کہتیں، بالکل اپنی ماں کی طرح۔۔ باہر کا کام جو چاہے کروا لو۔۔ پڑھائی لکھائی، شاپنگ، بلنگ مگر کھانا پکانا توبہ توبہ! ہمارے پاس جواب ایک ہی تھا۔۔ اتنا بورنگ کام روز روز کیسے کیا جائے بھئی؟ پیٹ ہی بھرنا ہے نا تو کچھ بھی کھایا جا سکتا ہے۔ دو کھیرے، دو ٹماٹر اور ایک کپ چائے۔

یہی وہ بھی سوچ رہی ہوگی، پیٹ میں کچھ ڈالنے کے لئے خواہ مخواہ کی مشقت کیوں کروں؟ بریڈ پہ نیوٹیلا لگا کر کھا لوں گی، کیا فرق پڑتا ہے کہ کل بھی یہی کھایا تھا اور پرسوں بھی۔ یہی سوچتے سوچتے وہ کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئی ہوگی۔

اب نظر ایک اور شہر کے وقت کا طواف کرتے ہوئے وہاں پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں رات کے ساڑھے نو بجے ہیں۔ کمرے میں لیمپ آن ہو چکے ہیں۔ سارا دن بہت سی میٹنگز بھگتانے اور ڈھیروں کام نمٹانے کے بعد تھکاوٹ تو بہت ہے لیکن پرلطف اور اشتہا انگیز کھانا بنانا بھی اسے بہت بھاتا ہے۔ مختصر سے کچن میں نوے کی دہائی کے مشہور گیت بج رہے ہیں، ایک دیگچی میں نوڈلز ابل رہی ہیں، دوسرے چولہے پر اٹالین ساس بن رہی ہے۔ ہاتھ میں پکڑے مگ سے کافی کی چسکیاں بھرتے ہوئے وہ سب کام اکھٹے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ ہنر اس نے اپنی نانی سے سیکھا ہے جو ایک ہی وقت میں بہت سی چیزیں چولہے کے مختلف برنرز پہ چڑھا دیتیں۔ کبھی ایک دیگچی میں چمچ ہلاتیں، کبھی دوسری کا ڈھکن اتار کر چیک کرتیں، اور کبھی تیسری کے نیچے آنچ تیز یا آہستہ کرتیں۔ ساتھ میں ادھر ادھر تیزی سے چلتی ہوئی باتیں بھی کرتیں اور بقیہ معاملات پر بھی ان کی نظر رہتی۔

پاستا بن چکا ہوگا اور اب وہ ٹی وی پہ دل والے دلہنیا لے جائیں گے نامی فلم لگا کر پاسٹا کھا رہی ہوگی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے وہ یہ فلم کم از کم سو مرتبہ تو دیکھ ہی چکی ہے لیکن اس کا دل نہیں بھرتا۔ کبھی کبھی ہمیں یہ لگتا ہے کہ فلم دیکھنے کا تو محض بہانہ ہے وہ بنیادی طور پہ اس لمحے میں جینا چاہتی ہے جب اس نے یہ فلم پہلی دفعہ دیکھی تھی۔

نوے کی دہائی کے آخری برس چل رہے تھے جب اس کی وی سی آر اور فلموں سے آشنائی ہوئی۔ شام کو سکول کا کام کرنے کے بعد اس کا پسندیدہ مشغلہ ننھے منے ہاتھوں سے وی سی آر میں کیسٹ لگا کر آن کرنا ہوتا تھا۔ وہ وی سی آر بھی اسی کی فرمائش پہ خریدا گیا تھا جس میں ہر روز کوئی نہ کوئی فلم لگا کر دیکھنا اس کے لئے لازم تھا۔ اکلوتے بچے نے ماں کی مصروفیات پہ واویلا مچانے کی بجائے اپنے لئے کتابوں اور فلموں کا انتخاب بچپن میں ہی کر لیا تھا۔

الارم پھر سے بجنے لگا، ٹرن ٹرن ٹرن۔ اے لو، پونے چھ بج گئے۔ چلو بھئی اب بستر چھوڑو، اور ہسپتال پہنچنے کی تیاری پکڑو۔ دنیا کے چار مختلف شہروں میں بیک وقت جینے کا یہ تجربہ بہت انوکھا ہے۔ کہنے کو ہم ایک شہر میں ہیں لیکن نہیں، ہم تو چاروں شہروں میں ایک ہی وقت میں رہتے ہیں۔

کہیں سورج ہمارے ساتھ طلوع ہوتا ہے تو ہمارے سامنے غروب۔ کہیں چاندنی کا فسوں پھیلتا ہے تو کہیں دن کا اجالا۔ دنیا کے تین شہر جن کا وقت ہمارے فون پہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ان تین شہروں میں رہنے والوں کو تصور کی آنکھ ہر لحظہ ہمارے دل کے قریب رکھتی ہے، ماں کے دل کے تار تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔

الارم پھر بج رہا ہے۔ ٹرن ٹرن ٹرن۔

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali