Jinsi Talazuz, Kab? Kyun? Kaise?
جنسی تلذذ، کیوں؟ کب؟ کیسے؟
صاحب، اگر آپ نابینا نہیں تو ہو سکتا ہے ان لوگوں میں شامل ہوں جو مرد کے جذبات میں تلاطم کی ذمہ داری عورت پر ڈالتے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ عورت ان صاحب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔
چلیے فرض کرتے ہیں کہ سگنلز بھیجنے کے نظام میں کوئی گڑ بڑ ہوگئی۔ مرد کی آنکھ نے عورت کو دیکھا مگر دماغ کو سگنل بھیجا کہ یہ عورت نہیں، لان میں پڑی کرسی ہے تو یقین کر لیجیے کہ مرد کسی ہیجان کا شکار نہیں ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آنکھ عورت کو دیکھے تو سہی مگر دماغ کو کوئی جذبات برانگیختہ کرنے والا سگنل ہی نہ بھیجے۔ جیسے سڑک سے گزرتا اندھا فقیر، پٹڑی پہ چلتی ریل گاڑی، تابوت میں پڑا مردہ جسم، آسمان پہ اڑتی پتنگ، پگڈنڈی پہ چلتی بیل گاڑی، سڑک پر کھیلتا بچہ، ریڑھی بان کی ترازو۔ ڈھیروں مناظر آنکھ دیکھے اور ویسی ہی تصویر پردہ ذہن پر بن جائے۔ جو ہے، جیسا ہے۔ بس اتنا ہی۔ نہ کوئی ہیجانی تصور، نہ سوچ، نہ خیال، نہ مزا، نہ شہوت سے ٹپکتی رال۔
اب تک سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ جنسی ہیجان کا دار و مدار پردہ دماغ پر بننے والی اس تصویر پہ ہے جو آنکھ کے پیغام کے نتیجے میں بنتا ہے۔ آنکھ تصویر بھیجتی ہے، دماغ وصول کرتا ہے اور ذہن فیصلہ دیتا ہے کہ سامنے کھڑی عورت کی چھاتی سے جنسی حظ لیا جا سکتا ہے۔ لیجیے گھسا شلوار میں ہاتھ اور لگا کھجانے۔ کسی نے روکا تو جواب ملا، ہم کیا کریں؟ وہ عورت آئی کیوں ہمارے سامنے؟
ایک اور صورت بھی ہے!
آنکھ تصویر بھیجے اور دماغ جان اور پہچان بھی لے کہ سامنے عورت ہے مگر ذہن سجھائے کہ ہاں ہے تو عورت۔ لیکن میرے جیسی انسان ہے۔ اور راہ میں نظر آنے والے ہر انسان سے جنسی حظ؟ کیسے ممکن ہے؟ کیا کروں؟ کچھ نہیں۔
مان لیجیے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ نہ جذبات میں تلاطم، نہ دل کی تیز دھڑکن، نہ سوچ میں اتھل پتھل۔ کیونکہ جس ہیڈ کوارٹر میں ڈیٹا سمجھا جاتا ہے وہ اسے ویسے نہیں سمجھا رہا جیسے آپ نے خود سے سمجھنے کی ٹھان رکھی ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے کھٹائی والے گول گپے کھانے کا خیال منہ میں پانی بھر دے اور حقیقت یہ ہو کہ نہ گول گپے، نہ زبان نے چکھے، نہ حلق سے اترے مگر ڈیٹا سینٹر میں موجود مزے کے تصور نے منہ لعاب دہن سے بھر دیا۔ اسی طرح ساون کا نام لیتے ہی خاص قسم کے پکوانوں کی یاد آ جاتی ہے۔ اور تو اور کبھی کبھار کوئی ایسا گیت جس سے کوئی خاص یاد وابستہ ہو، سنتے ہی دل کی دھڑکن تیز اور سانس اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔
آنکھ دماغ اور ذہن کے اس کھیل کو سائنس ثابت کر چکی ہے اور ان تجربات کو روسی سائنسدان پاولوف (Pavlov) کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جس نے کتوں کی مدد سے اس تھیوری کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اس کا مشاہدہ تھا کہ جب کتوں کو گوشت دیا جاتا ہے تو ان کا منہ خوشبو سونگھتے ہی لعاب دہن سے بھر جاتا ہے۔ پاولوف نے گوشت دیتے وقت ساتھ میں گھنٹی بجانا شروع کی۔ کچھ دنوں میں ہی کتوں کے ذہن نے جان لیا کہ گوشت کے ساتھ گھنٹی کا سمبندھ ہے۔ اگلے مرحلے میں کتوں کو گوشت دیے بغیر گھنٹی بجائی گئی۔ چونکہ کتے گھنٹی کی آواز کے ساتھ گوشت ملنے کو جوڑ چکے تھے سو گھنٹی کی آواز سنتے ہی کتوں کے منہ میں ویسے ہی لعاب دہن پیدا ہوا جیسے گوشت کو دیکھ یا سونگھ کے ہوتا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انسانی ذہن جب کسی ایک بات کو دوسری بات سے منسلک کر لیتا ہے تو جواباً دماغ کا ردعمل ہر دفعہ ویسا ہی ہوتا ہے چاہے بنیادی بات نہ بھی ہوئی ہو ہو۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ گول گپوں کا نام سنتے ہی منہ میں پانی کیوں بھر آتا ہے؟
بس یہی کچھ ہے جسے مرد کو اپنے دماغ کے ڈیٹا سینٹر سے مٹانا ہے۔ ایک ایسا ذہن جس میں کسی اجنبی عورت کی چھاتی دیکھ کر کوئی گھنٹی نہ بجے اور کسی قسم کے جنسی تعلق کی طرف سوچ نہ جائے۔
ہم سوچ سکتے ہیں کہ آنکھ، دماغ، ذہن، خیال، سوچ تو عورت کے پاس بھی ہے پھر عورت مرد کو دیکھ کر بے قابو کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں اس کا ہاتھ شلوار میں نہیں گھستا؟
جواب وہی کہ ذہن ایک سرکش گھوڑا ہے جسے لگام ڈالنا اور کس کر پکڑنا ہی انسان کا کمال ہے۔ جو یہ کام نہ کر سکے وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں رہتا۔