Begani Shadi Mein Kon Hai Deewana
بیگانی شادی میں کون ہے دیوانہ
میڈیا میں خبر آتی ہے۔
تقریبا ڈیڑھ کروڑ عورتیں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں۔
ہائے بے چاری عورتیں!
ہمیں ایسا لگا کہ کسی دکان کے شیلف میں پڑی ہیں بے چاری سب کی سب۔۔ باسی سبزی کی طرح۔۔ کب آئے کوئی خریدار اور اُن کا ختم ہو انتظار!
اس خبر میں بہت کچھ ایسا تھا جو زیرلب کہا گیا۔ غیر شادی شدہ عورت کو بے کس اور بے چاری کا ٹیگ اور احساس کمتری کا چولا پہنا کر بوڑھا ہونے کے احساس سے ڈرایا گیا۔ چلو بھئی جلدی کرو، پکڑو کوئی بھی مرد، پڑھواؤ نکاح اور پگ جاؤ۔
ویسے آپس کی بات ہے، بوڑھا ہونے میں کیا برائی ہے؟ ہمیں تو بڑھتی عمر بہت پرلطف لگتی ہے۔ اپنا آپ پھول سے بھی ہلکا محسوس ہونے لگتا ہے۔ زنجیریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں۔ آزادی دستک دے رہی ہوتی ہے۔ عورت کے لیے اس سے خوبصورت عمر کوئی نہیں۔
عورت کو چیز بنا کر پیش کرتے ہوئے لوگ یہ بھول گئے کہ اگر اس جملے میں عورت کی جگہ مرد ہو تو؟
اگر خبر یہ ہو کہ ایک کروڑ سے زائد مرد شادی کے انتظار میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔
کیا یہ سنتے ہی ہر کوئی اچھل پڑے گا اور حیرانی سے پوچھے گا وہ کیسے؟ وہ بھلا کیوں کرے کسی کا انتظار؟ اور بوڑھا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مرد اور گھوڑے بھی کبھی بوڑھے ہوئے ہیں کیا؟
تب یہ بات مزید واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ پدرسری معاشرے میں خریدار کون ہے اور کون کس کو بکنے والی چیز کے خانے میں ڈالتا ہے۔ کون احساس برتری کا شکار ہے اور اس کی شادی کوئی مسئلہ ہی نہیں چاہے بوڑھا ہو یا گنجا، توندیل ہو یا ناٹا۔۔ حتی کہ اگر مرد ہونے کے بنیادی وصف سے بھی محروم ہو تب بھی بیاہ کر لے آتے ہیں۔ موصوف اور شب زفاف مطالبہ کرتے ہیں کہ میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ بھرم رکھ لینا میرا، روٹی کپڑے کی تمہیں کمی نہیں ہونے دوں گا۔
یہ ہے عورت نامی انسان عرف چیز کی اوقات، جس کی زندگی تل جاتی ہے عمر بھر کی چھت روٹی اور کپڑے کے عوض۔
بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ کچھ دانشوران نے سوچا کہ کروڑ ڈیڑھ کروڑ تو پڑی ہیں شیلف میں منتظر اور یقینا گل سڑ بھی رہی ہوں گی سو اب ہم اپنی بھائی بندوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ بھیا کون کون سی لینا چاہو گے اور کس کس عمر کی؟ کام کرنے والی یا گھر اور باہر دونوں سنبھالنے والی؟
صاحب سوال نے عمر کی حد ہی پچیس سے پینتیس رکھی تھی سو جواب وہی آیا جو ہمیں پہلے سے علم تھا۔
شیلف پہ پڑی سب سے کم عمر۔
چاہے خود ہوں چالیس، پچاس ساٹھ کے لیکن چاہیں گے کہ لنگور کے ساتھ حور ہی ہو۔
کیا فرق پڑتا ہے اگر اپنی شکل ایسی ہو کہ دیکھ کر سمجھ نہ آئے کہ نسل انسانی سے تعلق ہے کہ نہیں مگر ساتھ چلنے والی کے چہرے پہ پکاپن نہ ہو۔
ویسے اس پکے پن کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کیا ہے؟
آگہی، علم، شعور اور معاش کی کرنیں جب چہرے پہ لو دینے لگیں، جب عورت اپنی کم علمی اور معصومیت کی بنا پہ دھوکہ نہ کھائے، جب عورت مرد کے روپ بہروپ کو پہچاننے لگے، جب عورت کو اپنا حق لینا آتا ہو۔۔ ایسی عورت کو کہتے ہیں بھائی لوگ، پکے چہرے والی عورت۔
پنجابی میں ایسی عورت کے لیے ایک لفظ ہے، آپ ہدری۔ چلیے اسی بہانے یہ نظم پڑھ لیجیے۔
رہنا ایسے بندے نال
ساری حیاتی
دن ہووے یا راتی
جو جو آکھے
جیویں آکھے
اوہو کرنا
اوویں ای کرنا
او آکھے تے بیہنا
او آکھے تے اُٹھنا
سونا، جاگنا
آپ ہدری نہیں بننا
پگ نہ ڈگن دیویں پیو دی
بی بی کڑی بن دسیں
کجھ وی ہووے
جس گھر جاویں
مردے دم تائیں وسیں
جی چاہتا ہے لگے ہاتھوں ان دانشوروں سے کچھ سوالات بھی پوچھ لیے جائیں۔
کیا شادی ایک عورت کو معزز سمجھنے کا عمل ہے؟
کیا غیر شادی شدہ عورت بے چاری سمجھی جائے گی جسے شادی کا ٹیگ جاری نہیں ہوسکا؟
کیا شادی ایک عورت کے عورت پن کی تصدیق یا توثیق کرتی ہے؟ اور اگر ہاں تو کیسے؟
کیا ایک غیر شادی شدہ عورت خوش نہیں رہ سکتی؟
کیا شادی ایک لازم امر ہے؟
مرد حضرات غیر شادی شدہ عورت پہ ترس کیوں کھاتے ہیں؟
ان کے خیال میں عورت کس چیز سے محروم ہے؟
کیا یہ فیصلہ عورت کو خود نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کس حال میں خوش ہے؟
مرد کیوں اسے اپنا فرض یا حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کو ان کی زندگیوں کے متعلق لیکچر دیں؟
اگر عورتیں پچیس برس عمر کی شادی نہیں کرنا چاہتیں تو اس میں مرد حضرات کو کیا اعتراض ہے؟
اور بالفرض محال اگر عورت کا یہ فیصلہ غلط بھی ثابت ہو جاتا ہے تب بھی سمجھ لیجیے کہ عورت جانے اور اس کی زندگی۔۔ مرد حضرات کے پیٹ میں رہ رہ کر مروڑ کیوں اٹھتے ہیں؟
جائیے حضرت، اپنی زندگی کی خبر لیجیے، عورتوں کو ان کے حال پہ زندہ رہنے دیجیے۔ مالک کے حضور اپنی زندگی کا حساب وہ خود دیں گی!