Be Jism Aurten
بے جسم عورتیں
شادی ہوئی، جنسی تعلق بنا، حمل اور پھر زچگی، بچہ سب کے سامنے!
جیسے چڑا لایا دال کا دانا، چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر پکائی کھچڑی اور مزے مزے سے کھائی۔ کہانی ختم، پیسہ ہضم۔
کاش عورت مرد کی کہانی بھی اتنی آسان ہوتی۔ مرد لایا سپرم، عورت لائی انڈا، بچہ بنا۔
کاش بچہ اتنی آسانی سے بنتا۔
بچہ پیٹ میں بننے کی کہانی بہت پیچیدہ ہے۔ وہ بچہ جو ایک سپرم اور ایک انڈے سے بننا شروع ہوا ہے۔ اس کی ہڈیاں، گوشت، بال ناخن، آنکھیں، دل، معدہ، انتڑیاں، دماغ نو ماہ میں بنتا ہے اور جانتے ہیں کہاں بنتا ہے؟
عورت کے پیٹ میں!
تو کیا پیٹ کوئی فیکٹری ہے جس میں مال بنتا ہے؟ اور فیکٹری میں مال بنانے کے لئے تو خام اشیاء درکار ہوتی ہیں۔ بچے کے جسم بننے کا خام مال کہاں سے آتا ہے؟
سیدھا سادھا جواب، ماں کے جسم سے۔
بچے کی ہڈیوں کا کیلشیم ماں کی ہڈیوں سے۔
بچے کا خون، ماں کے خون سے۔ بچے کے عضلات، ماں کے عضلات سے۔
اور سب کچھ۔
جان لیجیے بچے کو جو بھی چاہئے وہ لینے کے لیے باپ کے پاس دوڑا دوڑا نہیں جائے گا بلکہ جس کے پیٹ میں موجود ہے، وہیں سے اپنی ضرورت پوری کرے گا۔
عورت کے جسم پہ اب دو نفوس کی ذمہ داری ہے اس لیے اس جسم کو زیادہ کام بھی کرنا ہے۔ دل کی دھڑکن نارمل سے بڑھے گی تبھی تو خون بچے تک پہنچے گا۔ طرح طرح کے ہارمونز بھی نکلیں گے اور ان کا بوجھ بھی عورت کو اٹھانا ہے۔ گردوں کو نہ صرف اپنی غلاظت باہر نکالنی ہے بلکہ بچے کے جسم سے نکلے ہوئے غیر ضروری کیمیکلز سے چھٹکارا پانا ہے۔ پھیپھڑے سانس بھی زیادہ لینا چاہتے ہیں تاکہ بچے کے حصے کی آکسیجن لے سکیں۔ جلد ہر طرف سے کھنچنا شروع ہوگئی ہے تاکہ بڑھتا ہوا رحم جگہ لے سکے۔
عورت کو قے آتی ہے، دل متلاتا ہے، نیند نہیں آتی، کمر میں درد رہتا ہے، اٹھا بیٹھا نہیں جاتا، ویجائنا میں بار بار انفیکشن ہو جاتی ہے، دل گھبراتا ہے، قبض رہتی ہے، پیشاب جل کر آنے لگتا ہے، سانس پھولتی ہے، منہ پہ جھائیاں پڑ گئی ہیں، مسوڑے پھول گئے ہیں، زبان پہ السر ہیں، پیٹ پر بے انتہا خارش ہے، چھاتی میں درد ہے، پیٹ کے نچلے حصے میں بوجھ محسوس ہونے سے چلنا پھرنا مشکل ہے، پاؤں سوج گئے ہیں، ٹانگوں کی وریدیں پھول گئی ہیں، بواسیر شروع ہوگئی۔ میگرین کے دورے پڑنے لگے۔ بے چینی رہتی ہے، اعصاب چٹختے رہتے ہیں۔ خون کی شدید کمی ہے۔
یاد رکھیے یہ اس حمل کی علامات ہیں جن میں ابھی ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور آٹو امیون پیچیدگیاں شروع نہیں ہوئیں۔ یہ وہ پیکج ہے جو کم و بیش ہر عورت جھیلتی ہے اور اس کے نتیجے میں جسم و دماغ شکست و ریخت کا شکار ہوتا ہے۔ ہر نیا حمل عورت کو کمزور کرتا ہے۔
ابھی زچگی کا مرحلہ باقی ہے۔ زچگی اگر نارمل ہو تو ویجائنا سے نکلنے والے بچے ویجائنا کو تباہ تو کرتے ہی ہیں ساتھ میں مثانے اور مقعد کے نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ویجائنل ڈیلیوری کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے جسم کبھی بھی پہلے جیسا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر بچہ سیزیرین سے پیدا ہو تو اس میں بھی پیٹ تو کٹتا ہی ہے بعض اوقات کچھ اور پیچیدگیوں کا سامنا کر نا پڑجاتا ہے۔
پہلا یا دوسرا حمل پھر بھی قابل برداشت ہے لیکن تیسرے بچے سے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ ان مسائل کو جنم دیتی ہے جن سے عورت کو بڑھتی عمر میں نبرد آزما ہونا ہے۔ عورت بیس سے چالیس تک ان تمام مراحل سے گزرتی ہے اور اس کے بعد ایک ایسی عورت جنم لیتی ہے جس کی بقیہ عمر دواؤں کے سہارے گزرے گی مگر پھر بھی وہ وہ عورت نہیں ہوگی جس نے زندگی کاسفر کچھ برس پہلے شروع کیا تھا۔
حمل کی تعداد مرد کے لیے متعین کرنا چنداں مشکل نہیں کہ اس کے جسم نے کسی آزمائش سے نہیں گزرنا۔ اس کی تولہ بھر زبان ہاں یا نہیں کہہ کر فیصلہ کرتی ہے اور عورت کو ہر بار درد کا صحرا پار کرتے ہوئے موت کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔
عورت کا جسم بچے بناتا ہے لیکن کتنے؟
اس کا اختیار عورت کے جسم کے پاس نہیں !
ممتاز فیمنسٹ فلاسفر ہیلن سسکو کہتی ہیں"عورتوں کو ان کے جسم سے نکال دیا گیا ہے پرتشدد طریقے سے۔ اب وہ bodyless ہیں اور یہ بے جسما پن بھوتوں پریتوں والا نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ عورت کا جسم ایک ایسا علاقہ ہے جس پہ اس کی اپنی مرضی نہیں چلتی"۔
چلیے چلتے چلتے ہمارا ذاتی تجربہ بھی سن لیجیے۔ ہماری شادی ہوئی تو شوہر نے گوش گزار کیا کہ چار بچے چاہئیں۔ ہم نے جھٹ کہا، نہ بابا ہم تو دو پیدا کریں گے۔ گھمسان کا دن پڑا باتوں ہی باتوں میں __مگر ہم نہ مانے۔ پہلا بچہ پیدا ہوا اور ہم نے پکڑے کان کہ بس بابا یہ اپنے بس کی بات نہیں۔ خیر دوسرے بچے کے لیے ہم مجبورا تیار ہوئے کہ دو کا وعدہ کر چکے تھے۔
تیسرے کے لیے شوہر نے ہماری وہ منتیں کیں کہ ہتھیار پھینکنا پڑے۔ بیٹا پیدا ہوا جس کے سر میں بالوں کے دو دائرے (پنبھیری) تھے۔ وہ چور نظروں سے ہماری طرف دیکھ کر کہتے، سنا ہے جس بچے کے سر میں دو دائرے ہوں اس کا ایک بھائی دنیا میں آتا ہے۔
ہم نے سب سنا مگر سوچ لیا کہ چاہے پنبھیریاں دو ہوں یا چھ، چوتھا بچہ ہم پیدا نہیں کریں گے۔ ہمارا جسم تین بچے بنا چکا، اس غریب کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔