Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Tahira Kazmi/
  4. Aurat Aurat Ki Dushman

Aurat Aurat Ki Dushman

عورت عورت کی دشمن

بہت سے یاران نکتہ دان کا کہنا ہے کہ ہم یونہی عورت کی مجبوریوں اور مرد کی بالادستی کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ اصل میں تو گھمسان کی جنگ عورت کی عورت سے ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے داؤ پیچ دکھاتی ہیں اور مرد بے موت مارا جاتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کے ان داتا دیکھنے اور محسوس کرنے سے قاصر ہیں کہ عورت کو اس مخصوص کردار میں ڈھالا کیسے جاتا ہے؟

اوائل بچپن ہی سےتعلیم، غذا، آزادی رائے کے اظہار، خواہشات کی پیروی اور میل جول میں درجہ بندی وہ پہلا سبق ہے جو لڑکی کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی ذات پہ اس سے زیادہ اس کے باپ اور بھائی کا حق، اس کی مرضی اور پسند ناپسند پہ باپ اور بھائی کی مرضی کی ترجیح وہ طوق ہے جو شعور کی منزلیں طے کرنے سے پہلے ہی اس کی گردن میں ڈال دیا جاتا ہے۔

"کونسی کتاب پڑھنی ہے؟ کتاب پڑھنی بھی ہے یا نہیں؟ کس سے بات کرنی ہے؟ کس کو دوست بنانا ہے؟ دوست بنانا بھی ہے یا نہیں؟ کہاں جانا ہے؟ کس سے ملنا ہے؟ کیا پڑھنا ہے؟ کہاں پڑھنا ہے؟ کالج جانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ کیا پہننا ہے؟ فیشن کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ کس وقت گھر سے نکلنا ہے؟ گھر سے نکلنا ہے بھی یا نہیں؟ فلم یا موسیقی سننے کی اجازت ہے کہ نہیں؟ کب ہنسنا ہے؟ کس سے شادی کرنی ہے؟ اپنا پروفیشن بنانے کی اجازت ہے کہ نہیں؟ مردوں کے ساتھ پڑھنے یا کام کرنے کی اجازت ہے کہ نہیں؟"

کیا کبھی کسی نے کسی لڑکے کو اتنی اجازت والے مرحلوں سے گزرتے دیکھا؟

چلیے بچپن گزر گیا، ابا اور بھائیوں کی پابندیوں تلے آہستگی سے سانس لیتے اور سوچتے کہ کبھی تو اپنی مرضی والا خوش کن احساس زندگی میں در آئے گا۔

اب ایک اور مرحلہ درپیش ہے، ذمہ داری اور نگرانی کی نکیل ایک اور مرد کے ہاتھ میں تھمائے جانے کی منزل!

اور اب ہدایات کا اگلا مرحلہ ہے۔

دیکھو، میری اماں کو تمہارا دیر تک سونا قطعی پسند نہیں!

میرے ابا کو تمہارا زور سے ہنسنا اچھا نہیں لگتا!

میری بہنوں کو تمہارا فون پہ مصروف رہناکھلتا ہے!

میرے بھائی کو تمہارا ننگے سر رہنا نہیں بھاتا، دوپٹہ اوڑھا کرو!

اتنا ٹی وی مت دیکھا کرو!

تمہاری زندگی اب مجھ سے منسلک ہے سو سہیلیوں سے ملنے کا کیا مطلب؟

میکے کے چونچلے چھوڑو اور کچھ سنجیدگی اختیار کرو!

مجھے تمہارے ماں باپ کا وقت بے وقت میرے گھر آ جانا سخت ناپسند ہے!

نوکری کا کیا سوال؟ مجھے کام کرنے والی عورتیں زہر لگتی ہیں!

اس طرح کا فیشن ہمارے خاندان کی عورتیں نہیں کرتیں!

اگر مجھ سے سوال جواب کیا، تو دوں گا دو ہاتھ!

میں جو مرضی کروں، جس سے چاہے ملوں، تم مجھے روکنے والی کون؟

تمہاری اوقات ہی کیا ہے، تین لفظ کہہ کے ابھی نکال باہر کروں گا!

زہریلے الفاظ اور تلخ لہجہ، تشدد کی وہ قسم ہے جو اس نوجوان لڑکی کے کان میں شوہر اور سسرال کے ذریعے دن رات انڈیلی جاتی ہے اور جسمانی تشدد کی باری آنے میں بھی کچھ دیر نہیں لگتی۔ والدین اپنا بوجھ آگے منتقل کر چکے ہیں اور اب کسی بھی احتجاج کی صورت میں"صبر کرو بیٹی، وقت ضرور بدلے گا" کا لالی پاپ ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے۔ خوش رنگ خوابوں، نازک امیدوں اور کانچ سے جذبات بھرا دل کیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، یہ نہ والدین کا مسلہ ہے، نہ سسرال کا اور نہ ہی شوہرکا!

لیجیے جناب ہدایات، نگرانی، ذمہ داریوں کے بوجھ تلے سسکتی اور رویوں کے کوڑے سہتی عورت اس عمر پہ آن پہنچی جہاں اس کا جگر گوشہ اس کے درد کا گواہ، ایک بھرپور مرد کے روپ میں موجود ہے اور ماں نامی عورت کو وہ مقام دینا چاہتا ہے جو اسے آج تک نہیں ملا، اختیار اور فیصلہ کرنے کی طاقت!

پدرسری معاشرے کے نظام کی بے رحمی دیکھیے کہ عورت کو اگر کچھ مدت کے لئے طاقت یا اختیار دیا بھی جاتا ہے تو ایک مرد کے ہاتھوں جو اس پہ ہونے والی تمام زیادتیوں کا عینی شاہد بھی ہے اور ماں نامی عورت کا معاشی محافظ بھی۔

زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے اختیار کا لطف لیتی اور اپنی گم شدہ زندگی کی راکھ پہ کھڑی اس عورت پہ ہی اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ وہ احساس سے عاری کیوں ہے آخر؟ وہ ان پرتشدد رویوں میں کسی اور کی ساتھی کیوں بنتی ہے؟ وہ ایک دوسری عورت کا دکھ کیوں نہیں سمجھ سکتی؟ وہ اس زنجیر کو توڑ کیوں نہیں دیتی؟

یاد رکھیے کہ یہ عمر رسیدہ بھی اسی چکی میں پستے پستے وہاں تک آ پہنچی ہے جب دامن میں بدصورت یادوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ عمر کی آخری سیڑھی پہ کھڑی ہاتھ میں بچے کھچے اختیار اور طاقت کا تمغہ تھامے یہ عورت ایک مسخ شدہ شخصیت ہے۔ اس کی آرزوئیں اور اس کی خواہشات ایک چتا میں جل کے کب سے بھسم ہو چکیں، اس کا سادہ محبت بھرا دل پتھر کے ایک ٹکڑے میں ڈھل چکا، اس کی آنکھوں کے آنسو کب سے خشک ہو چکے، اب ان میں راکھ اڑتی ہے۔ کسی اور کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت کند ہو چکی، جذبات منجمد ہو چکے۔

سادہ اور ہلکے رنگ کا لباس پہنے، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، زندگی سے بیزار، اپنی بہو بیٹی کو نصیحتوں اور سرزنش کا زہر پلاتی یہ عورت تو پدرسری معاشرے کا تخلیق کردہ ایک مہرہ ہے جس پہ اس نظام کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ اسے معاشرے کو وہی واپس لوٹانا ہے جو اسے بچپن سے ادھیڑ پن تک ملا۔ وہی سبق کہ عورت کی کوئی مرضی اور پسند ناپسند نہیں ہوا کر تی اور سر جھکاکے زندگی گزارنے کا نام ہی اچھی عورت ہے۔

ہماری ایک حاملہ مریضہ میں خون کی شدید کمی تھی۔ ہمارے بار بار کہنے پہ کہ وہ غذا کا خیال کیوں نہیں رکھتی؟ اس نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ سسر صاحب تیزابیت کی وجہ سے بہت کچھ نہیں کھا پاتے سو ساس صاحبہ ان کی دلداری کے لئے باقی اہل خانہ کو بھی وہی سادہ و مختصر غذا کھانے کی تلقین کرتی ہیں جو سسر کے لئے پکتی ہے۔

دیکھا آپ نے، ادھیڑعمر عورت ایک ایسا ہتھیار، جو پدرسری نظام نے اپنی بقا کے لئے ایک اور عورت کے پر قطع کرنے کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس کی ذہنی نشوونما اطاعت کی اس ٹوپی کے ذریعے منجمد کی گئی ہے جو اسے بچپن میں پہنا کے شاہ دولے کی چوہیا کے روپ میں ڈھالا گیا۔

اور پھر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ گھر کے اندر تو عورت عورت پہ ظلم کرتی ہے، آپ اس پہ کیوں نہیں لکھتیں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

Check Also

America, Europe Aur Israel (2)

By Muhammad Saeed Arshad