Aishwarya Rai Jaisi Ya Deedar Jaisi?
ایشوریہ رائے جیسی یا دیدار جیسی؟
ہمیں عبدل رزاق سے مکالمہ کرنا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے ہماری نیت ہے جو جاننا چاہتی ہے کہ "جیسی" کے کیا معنی ہوتے ہیں ان جیسے مردوں کے ذہن میں۔
آئیے پوچھتے ہیں ان سے کہ کیسی ہوتی ہے "ایشوریہ رائے جیسی" عورت؟
خوبصورت؟
اس میں تو شک ہی نہیں۔۔
سمارٹ؟
مس ورلڈ کو سمارٹ تو ہونا ہی چاہئے۔۔
اداکارہ؟
یہ تو ایک صلاحیت ہے جس طرح کرکٹ۔۔
عورت؟
اس جیسی کئی عورتیں رزاق کے گھر میں ہوں گی سو ایشوریہ کا عورت ہونا کیا خاص بات ہے؟
پھر کیا سمجھیں" ایشوریہ رائے جیسی" کو!
ویسے اس جگ سا پزل کے بہت سے ٹکڑوں کو ہم نہ صرف پہچانتے ہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔ اور اس سمجھ میں بھی عبدل رزاق اوران جیسے بھائیوں کا ہاتھ ہے جو دن رات یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ایسی یعنی کہ "جیسی" عورت معاشرے کے منہ پر دھبہ ہے۔
آئیے بتاتے ہیں ہم آپ کو "ایشوریہ رائے جیسی" عورت کے معنی۔
اپنی مرضی کی مالک، خود اعتمادی سے بھری، دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار، اپنی پسند کی شادی کرنے والی، اپنی پسند کا لباس پہننے والی، اپنی مرضی سے شو بز میں آنے والی۔
ہاں، یہاں مسئلہ ہوا ہوگا: عورت اور اُس کی مرضی؟
عورت کی اپنی مرضی، عورت اور مرضی میں کیا تعلق؟
جی جناب پاکستانی مرد کی یہ تھیوری کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ہائیں، عورت اور یہ جرات؟
مرضی اور وہ بھی عورت کی؟
پسند اور عورت؟
کیسی باتیں کرتی ہو؟
ایسی عورت سے میاں عبدالرزاق اور ان جیسے دل بہلانے والے تعلق تو بنا سکتے ہیں مگر زندگی کا ساتھی بنانا اور اس کی کوکھ سے نیک خو بچے پیدا کرنا، نہ بابا نہ۔
کیسی باتیں کرتی ہو؟
ایشوریہ رائے کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچوں میں بیٹی بھی ہوگی اور ظاہر ہے "ایشوریہ رائے جیسی" ہی ہوگی۔ بیٹی اور اس "جیسی"؟
کیسی باتیں کرتی ہو؟
عبدالرزاق، شاہد آفریدی اور عمر گل جیسے مردوں کو یہ بات کیسے ہضم ہو سکتی ہے؟ جو اپنی نام نہاد عزت و غیرت کو بیٹی سے باندھ کر رکھتے ہیں اور پھر اپنے جیسے ایک اور مرد کی حفاظت میں دے دیتے ہیں۔ مرد سے مرد کو عورت ٹرانسفر۔۔ کیا کریں بھیا؟ بھیڑیے بہت ہیں ہیں نا آس پاس۔۔
البتہ اگر بیٹا پیدا ہو اور باپ جیسا ہو۔۔ وہ کسی بھی عورت سے تعلق رکھے، جیسے عبدالرزاق کا تعلق اداکارہ و ڈانسر دیدار سے رہا اور بات شادی تک پہنچی۔۔ کیا حرج ہے جناب؟
مرد بچہ ہے۔۔ عاشقی معشوقی نہ کرے تو پتہ کیسے چلے گا ہمارے بیٹے پہ جوانی آئی تھی۔
بقول عبدل رزاق کے، یہ سچا پیار تھا مگر تعلق قائم کرنے کے بعد جب شادی کی نوبت آئی تو انہیں یاد آ گیا کہ ان کے خاندان کو شوبز پسند نہیں اور شوبز سے تعلق رکھنے والی آزاد خیال عورت بیوی نہیں بنائی جا سکتی۔
البتہ عبدل رزاق کا ایسی ویسی عورت کو گرل فرینڈ بنانے پہ خاندان کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔
ہم عبدل رزاق کو یاد کروا دیتے ہیں کہ شادی کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں یاد آ گیا تھا کہ بیوی بنانے کی صورت میں دیدار ان کے بچوں کی ماں بنیں گی اور ان بچوں میں بیٹیاں بھی ہوں گی جیسے شاہد آفریدی کی بیٹیاں۔ ساتھی کرکٹر سات پردوں میں چھپائی گئی سے نیک خو بچے پیدا کر رہے ہوں اور عبدل رزاق دیدار سے؟ توبہ توبہ!
کیسی باتیں کرتی ہو؟
روایتی پاکستانی مرد کی طرح تعلق توڑنے کا اس سے اچھا بہانہ کیا ہوگا کہ خاندان نہیں مانتا۔
نہ جانے یہ خاندان تب کہاں ہوتا ہے جب ان جیسے مرد خوبصورت باعتماد اور آزاد خیال عورت کے ساتھ تعلق کا آغاز کرتے ہیں؟
ویسے اس بات سے ہمیں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے واقعی ایشوریہ رائے کا نام ان کی زبان سے پھسل گیا ہو۔ وہ کہا کرتے ہیں نا کہ بہو کی سرزنش کرنی ہو تو بیٹی کو سنا دو دو چار۔۔ بہو کو خود ہی کان ہو جائیں گے۔
لگتا ہے اداکارہ دیدار آج بھی عبدل رزاق کے حواس پر سوار ہیں سو پس پردہ تھیں وہ، بس عین وقت پر ایشوریہ کا نام زبان سے پھسل گیا۔
عبدالرزاق جیسے مرد کو نیک خو بچے پیدا کرنے کے لیے ایسی عورت چاہئے جس پر بقول ان کے کسی کی نظر نہ پڑی ہو۔ ہاں ان کی نظر جہاں چاہے، جس پر چاہے، جب چاہے، جتنی چاہے پڑتی رہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
شاید وہ اپنے نطفے کی تاثیر پر یقین نہیں رکھتے۔۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے نطفے میں بھی ویسی ہی عقل کی کمی ہوگی "جیسی" کہ۔۔ سمجھ جائیے نا پلیز۔
صاحب، ان جیسے مردوں کے نزدیک عورت کا دوسرا نام بچے دانی ہے جس کا کام محض بچے پیدا کرنا ہے اور بس بچے پیدا کرنا ہی ہے۔ دل پشوری کے لیے دیدار اور ایشوریہ رائے "جیسی" ہیں نا۔
جی چاہتا ہے کہ ان مردوں کی ایک غلط فہمی دور کرتے چلیں ہم۔۔ اور ساتھ میں ایک مشورہ بھی۔ جانتے ہیں نا آپ سب کہ ہمیں مفت مشورے دینے کا کس قدر شوق ہے؟
جان لیجیے کہ ہر عورت۔۔ جی ہر عورت چاہے وہ سات پردوں میں لپٹی ہو یا سٹیج پہ کھڑی ہو، اس کے پاس نہ صرف دماغ ہے بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی۔۔ مگر مرد برسوں ساتھ رہنے کے بعد بھی اس عورت کے اندر جھانک نہیں سکتا۔
بے چارہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ عورت اس لیے باکردار نظر آرہی ہے کہ چادر میں لپٹی لپٹائی، منہ میں زبان نہ کوئی تیزی نہ طراری۔۔ باہر نکلنے کی اجازت جو نہیں دی گئی۔
وہ جان ہی نہیں سکتا کہ اس عورت کے اندر کیا کچھ آباد ہے؟ محشر یا گلزار؟
جان لیجیے صاحب۔۔ عورت کا جو روپ آپ کے سامنے ہے وہ بس اتنا ہی ہے جتنا وہ دکھانا چاہے۔۔ جتنا وہ آپ کے سامنے ظاہر کرنا چاہے۔۔ چاہے آپ اسے ایسی سمجھیں یا ویسی۔۔ وہ کسی جیسی بھی ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ کیونکہ ہر عورت اپنے اندر ایک جہاں آباد کیے بیٹھی ہے۔۔ ایسا جہاں جہاں وہ کھلکھلاتی بھی ہے، رقص بھی کرتی ہے اور سپنے بھی دیکھتی ہے۔
تو چلیے لگے ہاتھوں وہ مشورہ سن لیجیے جو ہماری پسندیدہ فلم one flew over the cuckoos nest اور پسندیدہ اداکار کے توسط سے ہم نے سیکھا ہے۔
عبدل الرزاق جیسے مردوں کو معیاری و غیر معیاری بچے کا خیال پریشان رکھتا ہے۔۔ سو انہیں بتائے دیتے ہیں کہ عورت کے اندر رہنے والا یا رہنے والی نو ماہ تک ایسے رہتی ہے جیسے یک جان دو قالب۔۔ حمل میں سنی گئی، سوچی گئی، کہی گئی اور دیکھی گئی ایک ایک بات ویسے ہی بچے تک پہنچتی ہے جیسے اس کی ماں تک پہنچی۔
سو اگر عبدل رزاق جیسے نیک باز بچے چاہییں آپ کو، تو علاج کیجیے اس عورت کا کہ وہ اپنے اندر جہاں خلق کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔۔ بس ایک چھوٹا سا آپریشن کروانا پڑے گا آپ کو۔
دماغ کے سوچنے سمجھنے والے حصے کو فرنٹل لوب frontal lobe کہتے ہیں۔ گئے زمانوں میں نفسیاتی مریضوں کا فرنٹل لوب کٹوا دیا جاتا تھا۔ نتیجتا وہ زندہ تو رہتے تھے مگر ایسے کہ نہ منہ میں زبان، نہ ذہن میں سوچ۔۔ ایک کٹھ پتلی جس کو جتنا نچوانا ہو، نچا لو۔۔ ایک اشارہ اور بس۔
سو کروائیے عورت کے فرنٹل لوب کا آپریشن۔۔ پہلی فرصت میں نکلوا دیجئے۔
یقین کیجیے ایک ایسی عورت آپ کے ہاتھ آئے گی جو حکم کی غلام تو ہوگی ہی مگر ان "جیسی" بھی نہیں ہوگی جن کے پاس اپنی مرضی اور اپنی قوت فیصلہ ہوتی ہے۔
کیسی اچھی زندگی ہوگی سوچیے تو۔۔ نہ ہم "جیسی" عورتوں سے جڑی ہوئی ناگواری اور نہ ہی یہ خدشہ کہ بچے نیک خونہیں ہوں گے۔
اس مشورے پہ شادی شدہ حضرات بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔