Abba Aur Money Order
ابا اور منی آرڈر
ٹھک ٹھک ٹھک، طاہرہ کاظمی۔
ہر ماہ کی تیسری تاریخ ایک مخصوص دستک کے ساتھ جب نام سنائی دیتا تو ہمارے چہرے پہ بے اختیار مسکراہٹ دوڑ جاتی۔ چارپائی کے نیچے رکھی جوتی پہن کر دروازہ کھولتے تو بلاک کا چوکیدار کہہ رہا ہوتا، ڈاکیہ بلا رہا ہے جی آپ کو۔ بلاک کے دروازے سے داخل ہوتے ہی مین لابی تھی اور وزیٹر وہیں تک آ سکتے تھے۔ وزیٹر آ کر چوکیدار کو کمرہ نمبر اور لڑکی کا نام بتاتا اور چوکیدار کمرے تک جا کر اطلاع پہنچاتا۔
ڈاک آنے کا سلسلہ کچھ یوں تھا کہ ہر روز رنگا رنگ لفافوں کا انبار ہوسٹل تک پہنچتا۔ شہر شہر سے آئے ہوئے محبت نامے۔ ڈاکیہ لفافوں کی چھانٹی کرتا اور ہر بلاک کی ڈاک لابی میں پڑے ہوئے ایک بنچ پر رکھ جاتا۔ لڑکیاں جب کالج سے واپس آتیں، بے تابی سے بنچ کی طرف بڑھتیں۔ جس کسی کا نام نظر آتا وہ کھلکھلا کر لفافہ اٹھا لیتی۔ باقی چپ چاپ ڈائننگ روم کی راہ لیتیں۔ لیکن منی آرڈر کا معاملہ کچھ اور تھا۔
ہر مہینے لڑکیوں کو گھر سے ماہانہ خرچہ بھجوایا جاتا۔ کالج کی فیس اور ہوسٹل میں رہنے کی فیس سالانہ تھی جو یک مشت سال کے شروع میں ادا کی جاتی۔ ماہانہ خرچے میں کھانا پینا، کتابیں، چائے پانی، کپڑا لتا، سہیلیوں کی سالگرہ کے تحفے، گھر جانے کا کرایہ، ریگل کے دہی بھلے، چمن کی آئس کریم، شیزان کا لیمن ٹارٹ، کبھی کبھار میوزک کنسرٹ اور سینما کا ٹکٹ شامل تھے۔ ہوسٹل میں رہنا شروع کیا تو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ ماہانہ خرچ کتنا ہوگا لیکن ایک دو مہینے کے بعد سمجھ آ گئی کہ کہاں کب کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟
کچھ لڑکیوں کو گھر جانے پہ رقم ملتی، کچھ کو کسی کے ہاتھ بھجوائی جاتی۔ خیال ہے کہ ان دنوں شاید بینک اکاؤنٹ کا زیادہ رواج نہیں تھا سو ہمارے ابا نے منی آرڈر کرنے میں ہی آسانی سمجھی کہ برسوں کی عادت تھی۔ ابا اور منی آرڈر کا سمبندھ تب سے شروع ہوا جب وہ اپنے گاؤں سے نکل کر شہر آئے۔ بوڑھے ماں باپ اور بہن کو ہر ماہ کی پہلی تاریخوں میں منی آرڈر ملتا۔ منی آرڈر میں ایک دن کی تاخیر، یہ ابا کو ہرگز گوارا نہیں تھا۔ ہر ماہ کی یکم کو ابا تنخواہ لیتے، گھر آنے کی بجائے ڈاک خانے پہنچتے اور منی آرڈر بھیج دیتے۔
سالہا سال یہ معمول رہا لیکن کب تک؟ پہلے دادی گزریں پھر دادا، منی آرڈر وصول کرنے والے شہر خموشاں میں جا بیٹھے جہاں منی آرڈر کی ضرورت تھی نہ سہولت۔ لیکن ابا کو تو ہر ماہ منی آرڈر بھیجنے کی عادت تھی اور وہ جاری رہی۔ دادا دادی تو ہم دیکھ نہ سکے مگر بچپن میں یہ ضرور دیکھا کہ ابا ہر ماہ کی یکم کو کچھ دیر سے گھر آتے۔
گھر پہنچتے ہی اماں کو آواز دیتے جو کچن میں مصروف ہوتیں۔ اماں کہتیں، پہلے کھانا کھا لیجیے بعد میں۔ ابا کہتے نہیں بھئی، ضروری کام پہلے۔ اماں کچن سے نکل کر آتیں، ابا جیب سے نکال کر بہت سے نوٹ ان کے حوالے کرتے، گن لو۔ افوہ گننا کیا، آپ نے گنے ہوئے ہیں نہ۔ نہیں تم خود بھی گن لو، ابا کا اصرار۔ اماں نوٹ گنتے ہوئے مسکراتیں۔ ابا کہتے، ڈاک خانے گیا تھا، منی آرڈر کر آیا ہوں۔ سب کو؟ ہاں سب کو۔
یہ سب کون تھے؟ یہ ماجرا ہمیں بڑے ہونے پر پتہ چلا۔ ابا کے کچھ عزیز جو بوڑھے اور نادار تھے اور اماں کی طرف کچھ یتیم بچے۔ ابا نے ان سب کا ماہانہ باندھ رکھا تھا اور ہر مہینے انہیں منی آرڈر پہلے کیا جاتا، بعد میں گھر آتے۔ ہاتھ کی تنگی، بڑھتی ہوئی ضروریات، بچوں کے اضافی خرچ، مہنگائی، شادی بیاہ کے خرچ، کچھ بھی ہو، منی آرڈر پہ کوئی کمپرومائز نہیں تھا سالہا سال۔ نہ کبھی اماں نے روکا اور نہ ہی ابا نے سوچا کہ اس ماہ رہنے دیں، اگلے ماہ سہی۔ جب تک وہ بزرگ اس دنیا میں رہے اور بچے پڑھ لکھ نہ گئے، ابا کا رشتہ ڈاک خانے اور منی آرڈر سے نہ صرف بندھا رہا بلکہ اور مضبوط ہوگیا۔
ستر کی دہائی کے وسط میں آپا مزید پڑھنے لاہور روانہ ہوگئیں۔ سب ہی رشتے داروں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے بچی گھر ہوتے ہوئے ہوسٹل میں رہے؟ ویسے بھی لڑکی ذات کا معاملہ، ابا تو پہلے ہی جواب سوچے بیٹھے تھے کہ لڑکی ذات میری بیٹی، میں ذمہ دار۔ کسی کے گھر بھی چھوڑا، کیسا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اپنا گھر تو نہیں ہوگا وہ۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے گھر والوں کی طرف دیکھنا، ہر کسی کے موڈ کا خیال رکھنا، ہر بات میں شرم، مروت، لحاظ، کیوں رہے ایسے میری بیٹی؟ ہوسٹل ہی بھلا جہاں بیٹی خوشی خوشی مرضی سے وقت گزارے۔
آپا کو ہوسٹل رہنا پڑا تو منی آرڈر کا سلسلہ تو ہونا ہی تھا۔ ابا یکم تاریخ کو پہلے ڈاک خانے جاتے اور پھر گھر۔ آپا واپس آ گئیں اور پھر ہماری باری آ گئی۔ ایف ایس سی کے بعد ہم دن گن گن کر گزار رہے تھے جب اطلاع آئی کہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور جانا ہوگا۔ گھر میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی اماں ابا نے نہیں سوچا کہ کیا ہوگا؟ کیا کرنا ہے؟ اتنا خرچ؟ پانچ برس تک؟ تعلیم انتہائی ضروری چاہے بھوک کاٹنی پڑے اور لڑکی لڑکے میں قطعی کوئی فرق نہیں۔
ہم لاہور روانہ ہو گئے۔ سالانہ کالج فیس، ہوسٹل فیس یک مشت ادا کر دی گئی۔ کچھ رقم ہمارے ہاتھ میں، اور پھر ابا کی تاکید، جاتے ساتھ ہی پوسٹل ایڈریس بتا دینا اور یہ بھی کہ ماہانہ خرچ کتنا ہوگا؟ پہلے دن سے ہی ہوسٹل جا اترے۔ کمرہ الاٹ ہوا۔ پاکستان کے ہر شہر سے آئی ہوئی لڑکیاں، کھانے کا انتظام میس میں۔ کھانا یاد آتے ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ کہاں امی کے بنائے ہوئے مزے مزے کے کھانے اور کہاں میس کا کھانا، یوں سمجھ لیجیے کہ بس وہ جو کچھ بھی تھا بس کھانا تھا اس کا نام اس کی تفصیل پھر کبھی سنائیں گے۔
کھانے کے پیسے، کتابیں، چائے پانی، بنیادی ضروریات کا حساب لگا کر ابا کو بتایا۔ لیجیے ابا کے قدم پھر سے ڈاک خانے کی طرف۔ ہر ماہ کی یکم کو منی آرڈر ٹھیک تین تاریخ کو ہمارے دروازے پہ ٹھک ٹھک اور بلاوہ۔ طاہرہ کاظمی، پوسٹ مین۔ نہ پوسٹ مین تھکا نہ ابا، ایک لڑکی کو پرواز کے لیے تیار کرتے ہوئے پر مضبوط کرنے کا سفر۔ ایک بار کسی مولانا کو جوش خطابت میں کہتے سنا کہ چھوٹی عمر میں لڑکی کی شادی کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس پہ شوہر خرچ کرے اور وہی فائدہ اٹھائے۔ باپ کا بوجھ اور تردد کم سے کم۔
یہ سن کر انتہائی بے مزہ ہوتے ہوئے ہم نے سوچا، کیا کوئی باپ اپنی اولاد کو فائدے نقصان کے ترازو میں تول سکتا ہے؟ اپنی بیٹی کو دنیا فتح کرتے دیکھنا ایک ایسا لمحہ ہے جو ماں باپ کو سرشاری کی بلند ترین منزل پہ لے جاتا ہے۔ لیکن فوراََ ہی جواب مل گیا۔ بشرطیکہ اس باپ نے بیٹی کو اپنے جگر کا ٹکڑا سمجھا ہو تو۔ چوبیس برس گزر گئے ابا کو گزرے مگر گزرے کہاں۔ وہ تو ہر گھڑی ہر لمحہ ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
شکریہ ابا، آپ نہ ہوتے تو ہم جان ہی نہ سکتے کہ مرد ایسا بھی ہو سکتا ہے۔