March Ka Mahina, Voter Ki Aqsam
مارچ کا مہینہ، ووٹر کی اقسام
آزاد کشمیر میں انتخابی سال ہے۔ انتخابی ماحول اپنے جوبن کی طرف بڑھنے کے لئے آخری مرحلے کے قریب تر ہے۔ الیکشن کمیشن بھی مصروف عمل ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ کارکنان کو متحرک کرنے کے لئے روابط تیز ہونے لگے ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف آمنے سامنے آنے کو ہیں۔ تینوں اپنے اپنے ورکرز، سپورٹرز کے جذبات ابھارتے ہوئے روایتی تدابیر میں مصروف ہیں تاکہ عوامی قوت کے حامل جلسے سجانے میں زیادہ پریشانی نہ ہومسلم کانفرنس کی قیادت اپنے وجود کو توانابنانے کی کاوش کررہی ہے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مرکز(اسلام آباد) میں بر سر اقتدار جماعت میں اہم شخصیات کی شمولیت کے بارے میں دلچسپ صورتحال ہے جس کے پیش نظر پیشگی حفاظتی بندھ باندھنے کے لئے یہاں کی بر سر اقتدار جماعت مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم فاروق حیدرنے ممبران پارلیمانی پارٹی سے حلف لیاتھا۔
پیپلزپارٹی بھی احتیاطی تدابیر کر رہی ہے۔ ان شخصیات میں سابق سابق قائد حزب اختلاف سابق سینئر وزیر سردار قمر الزمان کا نام زیادہ بحث مباحثوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ قمر الزمان کو یہ اعزاز حاصل ہے وہ اپنی الگ خاص پہنچان، منفرد انداز اور، رعب و دبدبے کے خاصے سمیت باغ و بہار گفتگو کوہنر رکھتے ہیں۔ جہاں کھڑے ہوں میلہ سجانے اور محفل سجانے میں مہارت حاصل ہیں۔ جنوری میں پریس کلبز یونینز کی سطح پر صحافتی ضابطہ اخلاق تشکیل کے لئے دورے کے دوران ان کی پریس کانفرنس میں شرکت اور ملاقات کا خوش گوار اتفا ق ہوا۔ وہ ماحول کو تلخ کئے بغیر کارکنوں میں جو ش و خروش رواں رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور سب کے چہروں پرمسکراہٹیں، قہقے بکھیرتے ہوئے ان کو خوش رکھتے ہیں اپنے اور مجموعی سیاسی انتخابی حالات و مستقل کے حوالے سے سوالات پر ان کے تبصرے حقائق کے قریب ترعکاسی کرتے ہیں۔ خصوصا ووٹرز کی اقسام کی تعریف صحیح معنوں میں کی جن کے مطابق ووٹرز مختلف مزاج کے ہوتے ہیں۔
ایک ووٹرز کی خاص تعداد وہ ہوتی جو کارکنان اور جماعتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ اپنی پارٹی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ نظریات مقاصد اور کلچر کے رنگوں میں رنگے نظریاتی کہلاتے ہیں۔ ایک ووٹرز کی قسم امیدوار کے انداز، افکار، عادات، خوبیوں کی پسندیدیگی کی بنیاد پر اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک ووٹرز کی قسم اجتماعی تعمیراتی فلاح و بہبودکے منصوبہ جات، پروگرامات کو دیکھتے ہوئے کارکردگی کی بنیاد پر امیدوار کو ووٹ دیتی ہے۔ ایک قسم ملازمتوں وغیرہ کے حصول کے حوالے سے ووٹ کو کام میں لاتی ہے جبکہ ایک قسم ہواؤں کے رخ کے ساتھ چلتی ہے۔ ان کا اپنے حوالے سے بحث و تبصروں پر ہاں یا نا کے بغیر دلچسپ تبصرہ کوزے میں سمندر بند کرنے کے مصداق تھا کہ اب میری عمر کسی کو بھگانے یاکسی کے ساتھ بھاگ جانے والی نہیں رہی ہے آزا دکشمیر میں انتخابی مستقبل کیا ہوگا۔ اس ضمن واضح کیا اس کے حالات ماہ مارچ کے بعد واضح ہوں گے۔ سردار قمر نے وہ تمام باتیں بیان کر دیں جو عام لوگ اور خواص سب جاننا چاہتے تھے مگر اس میں ہر خاص عام خصوصاََ سیاسی کارکنان کے حوالے سے سبق ہے۔
ایک سیاسی کارکن سے شخصیت بننے کے لئے ضروری ہے اپنے مزاج، عادات سمیت فیصلے کرنے میں اپنے قد کاٹھ کا خیال رکھا جائے سیاست سمیت ہر معاملے، حالات میں سب پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے اپنی عزت، و قار سب کے لئے آسانیوں کا موجب بننے کے لئے سیاست سمیت کسی بھی شعبہ سے منسلک شخصیت میں اگر یہ صلاحیتیں نہ ہو تو جتنے مرضی بڑے منصب مل جائیں بندہ بڑا آدمی نہیں بن سکتا ہے۔ تاہم سردار قمرالزمان کی پیشگوئی اور تجزیئے کے اثرات فروری میں سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں لیکن مارچ کے آخر میں صورتحال زیادہ واضح ہوگئی کہ مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اپنے بچپن جوانی کے بعد زندگی کے تیسرے اور آخری حصے میں بھاگنے بھگانے سے اپنے وقار کھو دیتا ہے تاہم کوئی خود اس کے ساتھ آ کر بس جائے یہ خراج از امکان نہیں۔