Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syeda Muntaha Musharraf/
  4. 12 Minute Se Shakhsiyat

12 Minute Se Shakhsiyat

12منٹ سے شخصیت

خالق کائنات نے انسان کو احسن تقویم یعنی خوبصورتی کا نمونہ بنایا ہے اور اس کے اندر جہاں اور بہت ساری خوبیاں رکھی ہیں وہیں ایک خوبی "احساس" بھی ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے او ر اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی احساس کے غلط استعمال سے انسان کبھی کبھار جانوروں کی صف میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

انسان کی شخصیت میں "احساس" کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہر انسان کے ساتھ احساسات و جذبات (Feelings & emotions)ہوتے ہیں۔ ہر جذبے اور احساس کے اپنے اپنے خاندان ہوتے ہیں۔ چاہے وہ اچھے اور مثبت جذبات ہوں یا منفی۔ احساس کے یہ خاندان ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آپ کبھی بھی کسی ایک غلط احساس کو نوٹ کریں، جلد ہی اس کے ساتھ دوسرا احساس بھی پیدا ہوجائے گا، کیونکہ ان کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔

انسان کے اندر پیدا ہونے والے کسی بھی احساس کا دورانیہ 12منٹ تک ہوتا ہے۔ آپ کو کبھی کسی پرغصہ آئے یا پیار، وہ صرف 12منٹ کے لیے ہوگا۔ کسی بھی احساس میں اگر آپ 12منٹ تک اس پر قابوپالیں تو وہ خود بہ خود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ آپ غصے کی حالت میں ہیں تو یہ آپ کے 12منٹ کا امتحان ہے۔ 12منٹ تک آپ کسی بھی طرح ا س غصے کو ضبط کرلیں، کھڑے ہوجائیں، پانی پی لیں یا اس صورت حال کو چھوڑدیں تو وہ ختم ہوجائے گا، لیکن ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ ان بارہ منٹوں میں ہم اس احساس کو جانے نہیں دیتے، اس کو اپنی طبیعت کا حصہ بنالیتے ہیں جس سے وہ احساس لمبا ہوتا جاتا ہے اور اس کا خطرناک نتیجہ نکل آتاہے۔ ایک انسان کو غصہ آیا ہو تو کوئی بات نہیں لیکن دوانسانوں کو ایک وقت پر غصہ آئے تو یہ غصہ ضرب کھاکر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ انسان میں پیدا ہونے والااحساس کہتا ہے میری جان چھوڑدو، میں نے12منٹ بعدچلے جانا ہے لیکن انسان اس سے چمٹ جاتا ہے او ر اس کو جانے ہی نہیں دیتا۔

احساس 12منٹ کے بعد باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد انسان کا جو بھی ری ایکشن ہوتا ہے وہ اس کی اپنی پریکٹس کا عمل دخل ہوتا ہے۔ بارہ منٹ کے بعد بھی احساس کو نہ چھوڑنے والا انسان اسی کیفیت کو اپنے مزاج کا حصہ بنالیتا ہے۔ جس سے عادت بنتی ہے اور عادت آگے شخصیت کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔

انسان کے کل 16مزاج ہیں۔ انسان ہر روز اِن سولہ قسم کے مزاجوں کا سامنا کرتا ہے۔ ان مزاجوں سے باہر کوئی بھی نہیں جاسکتا۔ جیسے ایک شخص کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی انوکھی چیز دیکھتا ہے یاانوکھی بات سنتا ہے تو حیرت سے کہتا ہے:"ہیں۔۔ !!"اسی طرح ایک مزاج اور ہے جس میں انسان ایک دم سے خوش ہوجاتا ہے اور مسکرانے لگ جاتا ہے۔ پاس بیٹھنے والے پوچھتے ہیں کہ کیوں مسکرارہے ہیں؟ اوراس کا جواب ہوتا ہے کہ کوئی خاص وجہ نہیں، بس ویسے ہی۔

ہر وہ احساس جس کو بار بار آپ نے خوراک دی ہو وہ آپ کی طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے۔ آپ کو ہر انسان کے کچھ موڈز ملیں گے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اچھا بھلا شریف انسان ہو لیکن اس میں شک کرنے کی عاد ت ہو، کیونکہ اس نے شک والے احساس کو مزاج اورعادت بناکر اپنی شخصیت ہی ایسی بناڈالی۔ اب جیسے ہی اس کی شخصیت سامنے آئے گی تو آپ کہیں گے کہ وہ انتہائی شریف انسان ہے لیکن اس کو شک کرنے کی عادت ہے۔

ایک انسان وہ ہے جو انتہائی جنٹل مین ہے۔ آپ کے خیال میں وہ بالکل ٹھیک ہے۔ کسی کا حق نہیں رکھتا، ظلم نہیں کرتا، لیکن اس کے اندر بیزاری اور چڑچڑا پن ہے۔ وہ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر12منٹ کے لیے کہیں یہ احساس آیا تھا اور اس نے اس کر پکڑ کر اپنی شخصیت بنالی۔

ایک اور انسان ہے جس کو اللہ نے بہت نوازا ہے۔ وہ پہلے زیرو تھا، اب ہیرو بن گیا۔ چھوٹی گاڑی سے بڑی گاڑی ہوگئی۔ پیسے تھوڑے تھے اب بینک بیلنس بڑھ گیا۔ فیکٹری چھوٹی تھی اب بڑی ہوگئی لیکن زندگی کے کسی موڑ پر چند لمحوں کے لیے ناشکرے پن کا ایک احساس آیا، جس کو اس نے جانے نہیں دیا۔ کچھ عرصے بعد پھر یہی احساس آیا، اس نے پھرجانے نہیں دیا۔ اپناتے اپناتے وہ اس کے مزاج میں ہی آگیا۔ اب وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میری زندگی میں کیا کچھ موجود ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ میرے پاس فلاں فلاں چیز یں نہیں ہیں۔ یاد رکھیں!جس انسان کی بھی یہ عاد ت بن جائے کہ میرے پاس یہ یہ چیزیں نہیں ہیں تو پھر اس کے پاس اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو وہ اس کو انجوائے نہیں کرسکتا۔

لہٰذا جیسے ہی وہ شخص ناشکرے پن میں مبتلا ہوا، اس کے پاس موجود نعمتیں گھٹنے لگیں او ر پھر ایک وقت ایسابھی آیا کہ وہ پائی پائی کا محتاج ہوگیا۔ صرف بارہ منٹ کے ایک غلط احساس نے اس کی زندگی سے تمام نعمتیں چھین لیں۔

آپ نے زندگی میں بہت کچھ کمالیا، شاندار ترقی کرلی لیکن ایک دفعہ ناشکرے پن کا احساس آیا اور آپ نے اس کو مزاج کا حصہ بنالیا تو یقین کیجیے! باوجود ایک شاندار زندگی کے، آپ کی زندگی مشکل ہوجائے گی۔ شکر کا تعلق وسائل کے ساتھ نہیں ہے بلکہ احساس کے ساتھ ہے کہ جومیرے پاس ہے، اس میں میر اکوئی کمال نہیں بلکہ میرے اللہ کا کمال ہے۔ شکرگزاری دراصل اللہ کی یا د ہے۔ اللہ کی یاد یہی ہے کہ نعمتیں دی ہیں تو نعمتیں دینے والے کو بھولا نہ جائے۔

شُکر دل کی کیفیت کا نام ہے۔ اگر دل میں اپنی اوقات سے بڑھ کر نعمتیں حاصل کرنے کا احساس نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ شکر گزار نہیں۔ یہ شکر گزاری اگر آپ نے خود پر طاری نہیں کی تو آپ شکر کا مزہ نہیں لے سکتے۔ یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ جتنے آپ شکر گزار ہوں گے، اتنے آپ خوش ہوں گے۔ اتنا ہی آپ زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کریں گے، کیونکہ آپ کو حق سے زیادہ مل رہا ہے۔ کبھی آپ زندگی کی کسی ایک کامیابی کو سوچ لیں کہ اس میں آپ کی اپنی عقل کہاں تک تھی اور اللہ کا کرم کہاں تک تھا۔ سوچیں اور غور کیجیے ہمیں اپنی ہر سانس میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi