Siasatdan
سیاست دان
صاحبو سیاست دان کیا ہے؟ ہمارے جیسے جمہوریت پسند معاشروں میں امید کی کرن بھی ہے اور ایک ناپسندیدہ ترین شخصیت بھی۔ برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں ملک دولخت کرنے سے لےکر ملک بنانے تک کے الزامات اور سہرے سیاست دانوں کے حصے میں ہی آتے ہیں۔ اب چاہے لوٹا بننے کا عمل ہو یا بد عنوانی کے کبھی نہ ختم ہونے والے الزامات۔ یہ سیاست دان ہی ہوتا ہے جو ہر شکست کی بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ قربانیاں بھی دیکھیے تو سب سے زیادہ سیاست دان ہی دیتا ہے، کبھی خاندان کے خاندان سولی چڑھ جاتے ہیں تو کبھی کسی کی سفاکی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ انہی قربانیوں کے نام پر پھر عوام کے سامنے اپنی اگلی نسلوں کو لے آتے ہیں۔ اب یہ جنون ہے یا اقتدار کی لالچ ہے یا کچھ کر دکھانے کا جذبہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس جمہوری سیاست نے تاریخ کے صفحوں کو خون سے رنگا ہوا ہے پر وہیں عوام کے لیے بہتری بھی کی ہے۔ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانیت کے لیے کچھ بہتر کرنا ہے تو کیا سیاست ضروری امر ہے۔ عوام کی طرف نظر دوڑائیں تو وہ کبھی کسی سے لو لگاتے ہیں تو کبھی کسی اور سے امید، بس اچھے دنوں کی یاد میں ووٹ دیے جاتے ہیں۔
جس طرح ہر عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح سیاست اور سیاست دانوں میں بھی مثبت اور منفی پہلو دونوں پائے جاتے ہیں۔ پر زیادہ تر عوام الناس اور ہمارے جیسے بقراطی سوچ کے حامل منفی پہلوؤں کو اجاگر کرکے خوش ہوجاتے ہیں۔ ایک سیاست دان اگر کوئی بھی اچھا کام بھلے کھلے دل سے کرے مخالف سیاست دان اس میں کوئی نہ کوئی خامی نکال ہی لیتے ہیں۔ اب سیاسی لوگ پارٹیاں بھی بدل لیتے ہیں۔ جس کو عرف عام میں لوٹا بننا بھی کہتے ہیں پہلے جس پارٹی کے منشور کے حامی نظر آتے ہیں پارٹی بدلتے ہی اس میں ہر قسم کی برائی حتی ٰکہ بدعنوانی کا پہلو بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
اب جو بیچارا عوامی مفاد میں بات کرے اس پر بھی موقع پرستی اور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کا الزام لگ جاتا ہے۔ الغرض الزام تراشی کے اس کھیل میں خاص کر آج کے سماجی میڈیا کے دور میں عوام بھی خاصا محظوظ ہوتے ہیں اور ایوانوں میں ہونے والے سیاسی جنگوں کے واقعات سے خوب لطف اندوز ہوتے اور یوٹیوب پر میڈیا مالکان واقعات کو براہ راست نشر کرنے کے بعد بھی بڑا مال بناتے ہیں۔ یعنی یہ سیاست دان سب کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے اس برقی میڈیائی دور میں جہاں اخلاقیات اور وفا کے نئے معانی سامنے آرہے ہیں، یعنی ایک کھلاڑی ایک ٹیم سے دوسری ٹیم میں ایک ملک کی شہریت سے دوسرے ملک کی شہریت، سیاست دان ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں، کیا وہاں اس جمہوری عمل کی ضرورت ہے؟ جس میں عوام کے ووٹوں کے ذریعے ملکی قیادت کا فیصلہ کیا جاتا ہے، جہاں اس پروپیگنڈا کے ماحول میں عوام حقائق کے سے لاعلمی کے باعث صحیح فیصلہ نہ کر پائیں۔
کسی اور بہتر نظام کو لایا جائے جہاں بہتر قیادت لائی جاسکے جو بہتر عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کرسکے۔ نسل در نسل جمہوری بادشاہت کا نظام بدل سکے، یا پھر اس جمہوری نظام میں کسی بہتر سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔ کیونکہ اصل مسئلہ معاشی ہے، سیاسی نہیں اور ہم اسکا سیاسی حل ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔