Saltanaton Ka Qabristan
سلطنتوں کا قبرستان
صاحبو افغانستان میں طالبان نے مکمل قبضہ کرلیا ہے، طالبانی جدوجہد رنگ لائی اور افغانستان پر طالبانی رنگ چڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ سماجی میڈیا پر ہر طرف سے مختلف ردعمل، خطے کی اس نئی صورتحال پر آنا شروع ہوگیا ہے۔ اسلام کی بڑی کامیابی، فتح مکہ کی یاد تازہ ہوگئی، حق آگیا باطل مٹ گیا، پورا سماجی میڈیا ایسی پوسٹوں سے بھر گیا ہے۔ جو پہلے طالبان سے اپنا تعلق جوڑنے پر ناراض ہوجاتے تھے، آج بڑھ چڑھکر انکی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں۔
دوسری طرف کچھ مبصرین کی رائے میں امریکی انخلاء کوئی نیا کھیل ہے۔ ادھر مغرب میں نوبل انعام یافتہ محترمہ ملالہ یوسف زئی صاحبہ کو افغانستان میں مقیم خواتین، بچوں اور غیر ملکی مہمانوں کی سلامتی کی فکر کھائی جارہی ہے حالانکہ تادم تحریر کوئی ناخوشگوار واقعہ اس حوالے سے پیش نہیں آیا۔ محترمہ بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں، لیکن شاید وہ محض آوازیں ہی رہتی ہیں۔ عمل زرا کم ہی نظر آتا ہے۔ حالانکہ کہ مغرب انکو بڑی اہمیت دیتا ہے، کینیڈا کی اعزازی شہریت تک محترمہ کو دی گئی اور اپنے ایک خطاب میں محترمہ نے کینیڈا کے وزیر اعظم سے شکایت تک کی کہ باوجود اعزازی شہری ہونے کہ انکو کینیڈا آنے کہ لیے ویزا لینا پڑتا ہے، بہرحال صاحب افغانوں کی تاریخ ہی کچھ ایسی ہے بڑی بڑی منہ زور طاقتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئیں۔
افغانستان 19 اگست 1919 کو آزاد ہوا، مگر اپنی ایک سو دو سالہ تاریخ میں کبھی اس مقام پر نہ پہنچ سکا جو کبھی افغانوں کا ماضی تھا۔ گزشتہ پینتس برس سے افغانستان حالت جنگ میں ہے امریکہ بہادر اور روس دونوں بڑی قوتوں سے افغان جنگ لڑتے آرہے ہیں، مگر دونوں بڑی طاقتیں شاید اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے افغانستان ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے اسکے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چاینہ اور شمال میں ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان ہیں۔
1919 میں افغانستان نے انگریزوں سے باضابطہ آزادی حاصل کی، مگر درحقیقت اسکے بیشتر علاقے آزاد ہی تھے۔ناگر اسلام سے قبل کا دور دیکھا جائے تو کئی ہزار سال پہلے بھی افغانستان میں انسانی آبادی تھی۔ 2000 قبل مسیح میں آریاوں کی قوم نے افغانستان پر قبضہ کیا، جسے بعد میں ایرانیوں نے ختم کیا۔ سکندراعظم نے کچھ علاقے افغانستان کے فتح کیے، مگر اسکا قبضہ زیادہ عرصہ نہ رہا۔ 642 عیسوی تک افغانستان کا علاقہ منگول، ساسانی اور ایرانیوں کے پاس رہا پھر بلا آخر مسلمانوں نے اسے علاقے کو فتح کیا اور اپنے قدم جمائے۔
1919 میں باقاعدہ آزادی کے باوجود افغانستان میں سیاسی استحکام اتار چڑھاو کا شکا رہا۔ امان اللہ خان کا دس سالہ دور اقتدار جس میں اسنے مغربی دنیا سے بڑے تعلقات قائم کیے، تعلیم کو لازم و ملزوم قرار دیا۔ 1921 میں باقاعدہ فوج اور فوجی نظام تشکیل دیا، افغان فضائیہ قائم کی جسکے لیے روس سے جہاز منگوائے۔ فرانس اور ترکی سے فوجی تربیت فوج کے جوانوں کو دلوائی، مگر مغربی ماحول اپنانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور امان اللہ خان کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔
اسکے بعد نادر شاہ 1929 سے 1933 تک بادشاہ رہے جسکو ایک طالب علم نے قتل کر دیا تھا اسکے بعد ظاہر شاہ 19 سال کی عمر میں بادشاہ بنا جو نادر شاہ کا بیٹا تھا۔ ظاہر شاہ نے چالیس سال حکمرانی کی۔ اسکا ایک وزیر اعظم سردار داود بھی تھا جو پاکستان کا شدید مخالف تھا اسنے روس اور بھارت سے تعلقات استوار کیے۔ ایک فوجی بغاوت کے بل پر اسنے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ظاہر شاہ فرار ہوکر اٹلی بھاگ گیا۔ سویت یونین نے سردار داود کی سارے معاملات میں مدد کی 1978 میں سردار داود کو بھی قتل کیا گیا اور نور محمد ترہ صدر بن گئے۔
روس نے اپنا کمیونزم نظام افغانستان میں رائج کرنے کی بڑی کوشش کی مگر امریکہ کو اپنا نظام چاہیے تھا، پہلے روس گیا اب امریکہ۔مگر دیکھا جائے تو افغان عوام کا ان پینتیس سالوں میں معاشی قتل عام ہوگیا لوگ جنگ کی وجہ سے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے اور انکی نسلیں تعلیم و ترقی سے بے بہرہ ہوگئیں۔ جو افغانستان میں رہ گئے انہوں نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے پوست اور اسلحہ کی تجارت کو اپنا شعار بنالیا۔
اور یوں اس سائنسی اور معاشی ترقی کے دوڑ میں افغانستان بہت پیچھے رہ گیا۔ بہرحال 2021 میں تاریخ پھر دھرائی گئی۔ اور اب نیا نظام طالبان سامنے آیا ہے۔ اللہ سے امید یہی ہے یہ انقلاب اس دفعہ افغانستان کی تقدیر بدل دے گا جو اسلامی بھی ہوگا اور جدید بھی۔