Depression Aur Muashra
ڈپریشن اور معاشرہ
ڈپریشن کے شکار بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صرف افسردہ ہیں، اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ دور ہوجائے گا۔ کچھ لوگوں کے لئے، یہ صرف وہی کرتا ہے۔ لیکن 15 ملین دوسروں کے لئے، ڈپریشن ایک مستقل احساس ہے جو خود ہی ختم نہیں ہوتا ہےاور ایسے افراد اضافی طبی مدد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈپریشن دنیا میں معذوری کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ بدقسمتی سے، ان لوگوں میں سے صرف 10٪ ہی کوئی موثر علاج حاصل کرتے ہیں۔
کسی ایسے شخص کے لئے جو افسردگی کا شکار ہے، کیا اس کی نماز ادا نہ کرنے پر تنقید کرنا اچھا خیال ہے؟ لیکن کچھ لوگ اس سنگین ذہنی حالت میں مبتلا لوگوں سے ہمیشہ یہ پوچھتے ہیں۔ میرا مقصد یہاں ہماری مقدس اقدار یا مذہبی ذمہ داریوں کو مجروح کرنا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، میں ان چیزوں سےبھی انکار نہیں کرسکتا جو نماز انسان کے لئے کر سکتی ہے۔ لیکن ہم یہاں ان لوگوں کی ذہنی حالت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو عقلی اعتبار سے سوچنے کی صلاحیت سے محروم اور بدترین حالات کی وجہ سےنا امیدی اور خودکشی کے خیالات کے شکار ہو چکے ہیں۔
ڈپریشن محض عارضی افسردگی ہی نہیں ہے جو زیادہ تر لوگ اسے محسوس کرتے ہیں۔ ذہنی تناؤ کا شکار افراد ذہنی اور جسمانی طور پر تھکے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت تنہا کمرے میں بند ہو کر اور سوتے ہوئے گزارتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ کچھ معمول کے مطابق دکھائی دے سکتے ہیں۔ لہذا، ان سے بات کرتے ہوئے انکی طبی حالت سے واقف رہنا انتہائی ضروری ہے۔
ڈپریشن کسی شخص کی سوچ اور روز مرہ کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے جن میں اسکی پسند کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ اس سے انسان کو تمام سرگرمیوں میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ جن سےپہلے لطف اندوز ہوتا تھا۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے جس پر لوگ توجہ نہیں دیتے، اورہمارے معاشرے میں خواتین کا سب سے برا حال ہے۔ اگر کوئی عورت ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے تو لوگ اس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اوورڈرمیٹک، توجہ طلب ہے اور اس عورت کے ساتھ متعدد مختلف معاشرتی برائیاں بھی جوڑ دیتے ہیں۔
ڈپریشن عارضی افسردگی کی حالت نہیں ہے۔ یہ ایک سنگین طبی حالت ہے جس میں توجہ اور پیشہ ورانہ علاج کی ضرورت ہے۔ جس طرح سے ہمارا معاشرہ اِس بیماری کو عام سمجھتا ہے یہ غلط ہےاوریہ ضروری ہے کہ ہمجب بھی کسی ایسے شخص سے بات کریں تو اپنے الفاظ کا خیال رکھیں۔