Tasawur e Ibadat
تصورِ عبادات
مثالی معاشرہ ہمیشہ تین اہم بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ مساوات، صبر و برداشت، نظم و ضبط کی پابندی۔ ایسا معاشرہ جسے کسی بھی دور میں ایک آئیڈیل اور ممتاز حیثیت دی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ اس میں یہ تین خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہوں۔
اسلامی معاشرے کی اگر بات کی جاۓ تو اس کی سب سے اہم بنیاد مساوات ہے۔ مذہبِ اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کہا جاتا ہے، دستور زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ایک ایسا نظام کہا جاتا ہے جو ہر دور کے انسانوں کی معاشی اور معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس نظام کے تحت بسنے والے لاکھوں اور کروڑوں لوگ اس کی چھاؤں میں پرامن اور باوقار زندگی گذار سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مذہبِ اسلام نے عبادات کا جو تصور دیا ہے وہ محض جنت و جہنم کے خول میں بند نہیں ہے بلکہ اس کے وسیع تر معاشی اور سماجی فوائد موجود ہیں جن کی سمجھ بوجھ رکھنا اور عملی زندگی میں معاشرے کے سامنے پیش کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کسی بھی فرضی اور نفلی عبادت کی ادائیگی میں ہم فضائل و وعیدوں پر ساری توجہ رکھتے ہیں مگر یہ عبادت ہمارے سماج اور معاشرتی تقاضوں کو کس حد تک پورا کرے گی اس کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ماہ مقدس کی دو اہم عبادتیں یعنی روزہ اور زکوة کی فضیلتیں اور وعیدیں بے شمار ہیں لیکن یہ فضائل تصور عبادات نہیں ہیں بلکہ مقصود عبادات معاشرتی سدھار ہے جو اس سارے مہینے میں کہیں پیچھے کھو جاتا ہے۔
عبادتِ زکوة ایک ایسا مربوط اور کامل نظام ہے جس نے معاشیات کے ماہرین کی عقلیں ٹھکانے لگائی ہوئی ہیں۔ امراء سے وصولی اور غرباء پر خرچہ، تقسیم زر کا بہترین فارمولہ، گردش اموال کی عمدہ شکل اور اس پیچیدہ مسئلے کا حل جس نے جدید معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں یعنی امیر کا امیر سے امیر تر ہونا اور غریب کا غریب سے غریب تر ہونا۔ امراء کے کل مال سے ڈھائی فیصد زکوة وصولی نہ صرف اسلامی بیت المال کے مستحکم ہونے کا ذریعہ ہے بلکہ غرباء پروری کی ایسی پروقار شکل ہے جو انہیں در بدر پھرنے اور دستِ سوال دراز کرنے کے بجاۓ عزتِ نفس کی سلامتی کے ساتھ پیٹ کی آگ بجھانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اور امراء کے واسطے سخاوت کی راہ ہموار کرتی ہے جو انہیں سارا سال اسی ڈگر پر چلانے کا ذریعہ بنتی ہے اور اسلامی نقطۂ نگاہ سے مال کی پاکی کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ دراصل وہ معاشرتی پہلو اور مقصود عبادت ہے جو انسانیت کا درد پیدا کرتا ہے اور کم حیثیت لوگوں کی دستگیری اور معاونت کا ذریعہ بنتا ہے البتہ اس حوالے سے جن انعامات و احسانات کا تذکرہ ہے ان کی حیثیت محض ایک لالچ اور شوق پیدا کرنے کی سی ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے فائدے کی چیز کی طرف لپکتا ہے جب تک اسے کوئی ظاہری فائدہ نظر نہ آۓ ان امور کی طرف اس کا مائل ہونا مشکل ہے۔
مالک کون مکان کی بادشاہت لازوال ہے اس کے خزانہ قدرت میں لفظ قلت کا وجود ہی نہیں ہے وہ اگر ابتداۓ آفرینش سے انتہاۓ کائنات تک اس دھرتی پر قدم رکھنے والے تمام جن و انس کو بھی نوازے تو اس کی وسعت شان میں سوئی کے ناکے جتنی کمی بھی واقع نہیں ہوگی مگر باوجود اس کے ثوابات و جزاء کو موقع در موقع لمحہ بہ لمحہ بیان کیا گیا تاکہ عبادات کا اشتیاق پیدا کر کے مقصود عبادات کو حاصل کیا جا سکے اور معاشرتی زندگی کو خوبصورت اور پرامن بنایا جا سکے۔
اس ماہ مبارک کا خاصہ اور اہم ترین عبادت روزے کے حوالے سے بھی عمومی رجحان یہ ہے کہ صبح طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانا پینا ترک کر دیا جاۓ حالانکہ دیگر عبادات کی طرح یہ عبادت بھی شخصیت اور معاشرے کی تعمیر کے لۓ قدرت کی طرف سے عطا کی گئی نایاب عبادت ہے جو نہ صرف جسمانی صحت کا ذریعہ ہے بلکہ اس سے معاشرتی اصلاح کے بھی بہت سے پہلو نکلتے ہیں۔ جسمانی صحت جسے آج چودہ 100 سال بعد سائنس کے پجاری ثابت کر رہے ہیں اسے پیغمبر صادق ﷺ نے پہلے ہی بیان فرما دیا تھا۔ اور معاشرتی اصلاح کے وہی دو بنیادی پہلو اس سے نکلتے ہیں جو مثالی معاشرے کا جزو خاص ہوتے ہیں صبر و برداشت اور نظم و ضبط کی پابندی۔۔
اسلام نے باقاعدہ ان صفات کی تربیت کے لۓ روزے کو متعین کیا ہے کہ انسان صبح صادق سے غروب آفتاب تک نظم و ضبط یعنی خدائی منہیات کی پابندی کے ساتھ صبر و برداشت کی بھی تربیت حاصل کرتا ہے۔ اس وقت جتنے بھی آئڈیل اور مثالی معاشرے وجود رکھتے ہیں ان کی صفات کا جائزہ لیں یہ ہی دو صفات مقبول عام نظر آئیں گی کہ دوسروں کو اپنی منشاء اور اختیار کے مطابق زندگی بسر کرنے کا اختیار دیتے ہیں اور رواداری کے ساتھ نجی اور اجتماعی معاملات میں حسن اخلاق کے نمونے پیش کرتے ہیں۔
یہ وہ خدائی صفات ہیں جن کے اصل وارثین مسلمان ہیں مگر افسوس کے غیر مسلم اقوام ان اخلاقی قدروں کو تھام کر آئیڈیل معاشروں کی بنیاد رکھ رہی ہیں اور مسلمان اپنی وراثت سے دور ہوتے جا رہے ہیں ایک زمانے تک اہل اسلام نے انہی صفات عالیہ کے بل بوتے پر زمانے بھر میں راج کیا اور جوں جوں ان صفات قدسیہ میں کمی واقع ہوتی گئی اسلام اور اسلامی معاشرہ آئیڈیل اور مثالی حیثیت سے دور ہوتا چلا گیا۔