Khwabon Ki Shikast
خوابوں کی شکست

خواب دیکھنا انسانی فطرت کا لازمی جزو ہے۔ خوابوں کا تعلق محض آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت سے نہیں، بلکہ یہ احساس، امید اور آرزوؤں کا وہ جہان ہیں جو ہر انسان کے دل میں بسا ہوتا ہے۔ یہ خواب ہی ہیں جو ایک عام انسان کو غیر معمولی کامیابیوں کی راہ دکھاتے ہیں، لیکن خوابوں کی تعبیر ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ ان کے حصول کے لیے محض خواہش کافی نہیں، بلکہ بصیرت، محنت، مواقع اور منصفانہ نظام بھی ضروری ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ انسان کی "چار آنکھیں" ہوتی ہیں، دو وہ جو فطری طور پر عطا کی گئی ہیں اور دو وہ جو علم کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی ڈھانچے نے واقعی ان اضافی "آنکھوں" کو فعال کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک علم کی روشنی سچائی اور انصاف کے اصولوں پر مبنی نہ ہو، تب تک یہ اضافی آنکھیں خوابوں کی راہ میں اندھیرے کا سبب بنتی ہیں۔
ہمارے معاشرتی نظام میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صلاحیت سے زیادہ تعلقات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ایک قابل شخص اگر کسی ایسے نظام میں کام کر رہا ہو جہاں قابلیت کی قدر نہ کی جاتی ہو، تو اس کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب، ایک نااہل شخص اگر سفارشی بنیادوں پر کسی اہم مقام تک پہنچ جائے، تو وہ نہ صرف اپنی کم علمی سے ادارے کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ایک قابل فرد کے خواب بھی توڑ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار باصلاحیت افراد یا تو ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر مایوسی اور بے حسی کا شکار ہو کر اپنی قابلیت کو ضائع کر دیتے ہیں۔
خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ بننے والے عناصر میں سب سے نمایاں سفارشی نظام اور اقربا پروری ہیں۔ جب کسی معاشرے میں میرٹ کو نظرانداز کرکے سفارش کو معیار بنا دیا جائے، تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اہل اور محنتی افراد پیچھے رہ جاتے ہیں، جبکہ ناتجربہ کار اور نااہل افراد آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نتیجتاً، پورا معاشرتی ڈھانچہ زوال پذیر ہو جاتا ہے، کیونکہ ترقی کی بنیاد انصاف پر رکھی جاتی ہے اور جب انصاف ناپید ہو جائے، تو ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں انصاف، محنت اور دیانت کو جو مقام دیا جاتا ہے، وہی اس کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ اگر کسی فرد کو اس کی محنت کا جائز صلہ دیا جائے، تو وہ نہ صرف مزید بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر ایک محنتی شخص کی جدوجہد کو نظرانداز کرکے کسی نااہل کو اس کا حق دے دیا جائے، تو وہ شخص بددل ہو کر خود کو معاشرتی ترقی سے علیحدہ کر لیتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب خواب شکست کھا جاتے ہیں اور صلاحیتیں دم توڑ دیتی ہیں۔
تعلیم کا بنیادی مقصد شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں یہ عنصر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں طلبہ کو سوچنے، سوال کرنے اور نئے خیالات پیش کرنے کے بجائے رٹے بازی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ جب سوچنے کی صلاحیت محدود کر دی جاتی ہے، تو افراد اپنی قابلیت کو پہچاننے اور اس کا درست استعمال کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود حقیقی علم اور تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
اس صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا حکومت؟ کیا تعلیمی ادارے؟ کیا والدین؟ یا پھر خود وہ افراد جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرتے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کے تمام کردار ہم خود ہیں۔
اگر حکومت کی بات کی جائے، تو اکثر حکومتی سطح پر میرٹ کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور سفارشی افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، ایک غیر مستحکم نظام وجود میں آتا ہے جہاں میرٹ کی پامالی ایک عام روایت بن جاتی ہے۔ اسی طرح، تعلیمی ادارے طلبہ کو عملی مہارتوں اور خود اعتمادی دینے کے بجائے صرف نصابی کتب کی حدود میں محدود کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان عملی زندگی میں آ کر حقیقی مسائل کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
والدین بھی بعض اوقات بچوں کے خوابوں کو سمجھنے کے بجائے ان پر اپنے فیصلے مسلط کر دیتے ہیں، جس سے وہ زندگی میں وہی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان کی دلچسپی یا صلاحیت کے مطابق نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، وہ معاشرتی دباؤ کے باعث اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کھو دیتے ہیں اور صرف ایک روایتی زندگی گزارنے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔
تاہم، اس سب کے باوجود، سب سے بڑی ذمہ داری خود ان افراد پر عائد ہوتی ہے جو اپنے خوابوں کو ٹوٹنے دیتے ہیں۔ اگر ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے، تو معاشرتی ناانصافی کے اس جبر کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ افراد یا تو حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں یا پھر خاموش تماشائی بن کر ان مظالم کو سہتے رہتے ہیں، جس کا فائدہ نااہل اور سفارشی عناصر کو پہنچتا ہے۔
اگر ہمیں واقعی ایک ایسا معاشرہ چاہیے جہاں خواب شکست نہ کھائیں، تو ہمیں کچھ بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو اس نہج پر لانا ہوگا جہاں طلبہ کو محض ڈگریاں دینے کے بجائے عملی مہارتوں سے آراستہ کیا جائے۔ جب تک تعلیمی ادارے ایک ایسا ماحول فراہم نہیں کریں گے جہاں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملے، تب تک معاشرتی ترقی ممکن نہیں ہو سکے گی۔
دوسری اہم چیز سفارش اور اقربا پروری کا خاتمہ ہے۔ جب تک معاشرتی ادارے اور حکومتی محکمے سفارشی بنیادوں پر کام کرتے رہیں گے، تب تک محنت اور صلاحیت کی قدر نہیں کی جائے گی۔ ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جہاں ہر فرد کو اس کی محنت اور صلاحیت کے مطابق مقام ملے، تاکہ خواب حقیقت بن سکیں۔
سب سے بڑھ کر، ہمیں دیانتداری اور انصاف کو فروغ دینا ہوگا۔ کسی بھی معاشرے میں حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب وہاں افراد کو ان کی محنت کا جائز صلہ ملے۔ جب انصاف کو اولین ترجیح دی جائے، تو ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں دلچسپی لیتا ہے اور یوں پورا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
خواب دیکھنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایک مضبوط اور منصفانہ نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں میرٹ کو حقیقی معنوں میں تسلیم کیا جائے، تو ہمیں آج ہی سے اس تبدیلی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر، ہم ہمیشہ خواب ہی دیکھتے رہیں گے اور وہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکیں گے۔

