Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Uran China Ki

Uran China Ki

اڑان چائنہ کی

لاہور ائیرپورٹ سے جب طیارے نے پرواز بھری باہر خزاں کی آمد کا پیام دیتی ٹھنڈی تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ طیارہ بلند ہوا تو لاہور شہر برقی قمقموں کی ٹمٹماہٹ سے جگنوؤں کا بسیرا لگنے لگا۔ طیارے نے رخ موڑا اور شہر اوجھل ہوگیا۔ پورے چاند کی رات تھی۔ نانگا پربت کہیں نیچے تھا۔ شاہراہ قراقرم دھندلی سی لکیر مانند نظر آتی۔ اردگرد برفانی چوٹیوں کی سفیدی چاندنی میں دُھل کر مزید نکھری جا رہی تھی۔ میں نے ٹیک لگا کر آنکھیں موندیں تو گلگت بلتستان کی سفری یادوں نے آ گھیرا اور پھر پتا نہیں کب نیند کی دیوی نے طیارے میں اپنی بانہیں پھیلا دیں۔

آنکھ کھلی تو صبح کی ہلکی روشنی اُفق پر پھوٹ رہی تھی۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا کہ چین کی سرزمین پر پہلا واضح منظر کونسا آنکھ دیکھتی ہے۔ چین، موزے تنگ کا دیس، چو این لائی کا دیس، ہیون سانگ کا وطن، کنفیوشش کی سرزمیں، دیوار چین کو ڈھال بنائے میرے وطن سے دو سال چھوٹا مگر رقبے میں کئی گنا بڑا ملک۔ گول آنکھوں والی انسانی نسل کا وطن جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

بیجنگ ائیرپورٹ سے نکلتے ہی سڑک کے دونوں جانب کھیتوں کا منظر ہے۔ سڑک پر رواں ٹریفک کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد سائیکل سواروں کی نظر آتی ہے۔ اسکول جاتے بچے ہیں یا کام پر جاتے چینی مرد و عورتیں۔ سائیکل کا استعمال بیجنگ کی ٹریفک میں دفتر یا تعلیمی اداروں میں جلد پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ٹریفک کا حال برا ہے۔ جگہ جگہ اشارے، قدم قدم پر بریک۔ بیجنگ شہر کی آبادی شروع ہوئی جو ماضی قریب میں پیکنگ تھا۔ جسے پنجاب کے وارث شاہ نے پیکھن اور مراکش کے ابن بطوطہ نے پیکن لکھا۔ پنجابی شاعر کو پُتلی پیکھتے دی بڑی البیلی و سجیلی لگی تھی اور مراکشی سیاح کو پیکن کے صورت گر بہت پسند آئے تھے۔ سڑک کے اطراف چلتے چینی بزرگوں، بچوں و عورتوں کو دیکھتے ہوٹل آ گیا۔ میں نے ہوٹل پہنچ کر لباس بدلا اور بیجنگ کی سڑکوں پر گم ہونے نکل گیا۔

میرا ارادہ فاربڈن سٹی یا پیلس میوزیم جانے کا تھا۔ وہاں پہنچا تو سیاحوں کا ہجوم تھا۔ دنیا کے ہر ملک کا سیاح یہاں آپ کو مل سکتا ہے۔ گلے اور کاندھوں پر کیمرے لٹکائے سیاح پیلس میں داخلے کی ٹکٹ لیتے لائن بنائے کھڑے تھے۔ میں نے اپنی باری آنے پر ٹکٹ لی اور پیلس میوزیم میں داخل ہوگیا۔ فاربڈن سٹی یا پیلس میوزیم محلات کا ایک سلسلہ ہے جسے چینی سانگ اور کنگ خاندانوں نے اپنے اپنے عہد میں آگے بڑھایا ہے۔ اس کی تاریخ پانچ صدیوں پر محیط ہے۔ منگ بادشاہ ینگ لو کے زمانے میں دو لاکھ مزدوروں نے اسے پندرہ سال میں مکمل کیا۔ اس پیلس میں نو سو کمرے ہیں۔ مجھے وہاں ایک گائیڈ مل گیا جس نے بتایا کہ شہنشاہ کی لگ بھگ تین ہزار کنیزیں ہوا کرتیں جو حرم میں رہتی تھیں۔ حرم کے اطراف کی سیکیورٹی مخنث یا خواجہ سرا سنبھالتے۔ کسی مرد کو حرم کی جانب جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔

بادشاہ کی حفاظت کی خاطر دو ایک جیسی آرام گاہیں موجود ہیں تا کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ بادشاہ کس آرام گاہ میں شب بسر کرتا ہے۔ ویسے بھی بادشاہی کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی مملکت میں ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس چاہتی ہے۔ اپنی رعایا کے ہر خواب گاہ اور ان کے خوابوں تک میں اپنی موجودگی کا احساس چاہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب کبھی رعایا مہم جوئی پر اترتی ہے تو ان خوابوں کی سرنگوں میں سے ہوتی ہوئی شہنشاہوں کو زمین کی پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالتی ہے۔ پیلس میوزیم کے آخری مقیم بادشاہ پو یی کے ساتھ بھی لگ بھگ ایسا ہی کچھ ہوا اور اسے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ محلات کا ماحول بھی کرہ ارض پر ایک ہی طرح کا ہوتا ہے جو ایک ہی طرح کی سازشیں جنم دیتا ہے اور جب ان سازشوں میں سازشیوں کی ساری عقل خرچ ہو جاتی ہے تو پھر یہ محلات عوام پر اپنے دروازے کھول دیتے ہیں۔

Check Also

Schengen Visa Fraud In Dubai

By Ashfaq Inayat Kahlon