Tere Ghoonghat Pe Baat Ho
تیرے گھونگھٹ پہ بات ہو

شب و روز کے آنے جانے میں وقت کیسے تیزی سے بیتتا جاتا ہے۔ جو مُڑ کے دیکھوں تو کئی رنگین ساعتیں پیچھے کھڑی نظر آتیں ہیں۔ اس ملک کو میں نے کتنے رنگوں میں دیکھا ہے اس کا شمار ممکن نہیں رہا۔ آنکھ کھُلی تو ماں باپ نے دھرتی سے عشق کا پاٹ پڑھایا۔ کچھ عمر بڑھی تو مذہب زندگی کا مرکز بن گیا۔ کٹر مذہبی و سادات گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ خاندانی روایات کے بوجھ بھی ڈھوتا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے کئی بُت ٹوٹ کر آنکھوں کے سامنے گر گئے۔ یہ شعور کی وہ منزل تھی جہاں آگہی عذاب بن جاتی ہے۔ اس دھرتی پر منبر و محراب والوں نے بنام مذہب و مسلک خون بہایا، اس دھرتی کے ضامنوں نے سیاست و آئین کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ نے اس دھرتی کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نتیجتہً ریاست کے افراد میں ریاست سے نفرت جنم لے رہی ہے۔
نظام جیسا بھی ہے مجھے اس پر شدید اعتراضات ہیں لیکن شاید میں ان چند خوش نصیب انسانوں میں سے ہوں جس نے اس ملک کو اس آنکھ سے دیکھا ہے جس آنکھ سے بیشتر افراد دیکھنے سے محروم ہوتے ہیں۔ مجھے اس دھرتی سے عشق ہے اور یہی شاید میرے یہاں قیام کی وجہ ہے۔ اکثر احباب مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ سیٹل انسان ہیں، اچھے روزگار پر ہیں، قابل ہیں، آپ کے لئے دنیا کھُلی ہے تو آپ یہاں سے ہجرت کیوں نہیں کر جاتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کئی بار یہاں کے سماجی، سیاسی و مذہبی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر میں نے بھی ہجرت کا سوچا ہے مگر جس شخص نے ساری عمر اپنے ملک کے سافٹ امیج کو دنیا کو دکھانے میں بسر کر دی ہو اس کا ملک چھوڑ جانا اپنی ہی ذات میں ایک بڑا سانحہ ہوگا۔
جوانی سے میں آیئڈئیل ازم کا شکار تھا۔ وہ عمر ایسی ہوتی ہے جب انسان اپنی آئیڈیل دنیا، آئیڈیل شخصیت اور آئیڈیل سسٹم سے محبت کرتا ہے اور اس کے حصول کے لئے اپنی توانائیوں کا صرف کرتا ہے۔ پھر ایک گھڑی ایسی آتی ہے جب منکشف ہوتا ہے دنیا میں کچھ بھی آئیڈیل نہیں۔ نہ انسان اپنی من چاہی دنیا بسا سکتا ہے۔ کچھ تلخ زمینی حقائق ہیں جن کو اگنور نہیں کیا جا سکتا۔ ریشنل اپروچ اپنانا ہی حقیقی زندگی ہے باقی سب افسانے ہیں۔ اس ملک نے اگر ڈوبنا ہے تو ہم سب کروڑوں نے ڈوبنا ہے اور اگر اُبھرنا ہے تو سب نے اُبھرنا ہے۔ مگر یہ سوچ تب پیدا ہوتی ہے جب اجتماعیت غالب آئے۔ ہم صوبائی، لسانی، سیاسی و مذہبی و عسکری سطح پر تفریق در تفریق گروہ ہیں اور ہر گروہ دوسرے پر غالب آنا چاہتا ہے۔
آگہی بڑی اذیت ہے۔ شعور کی کسی منزل پر آئیڈل ازم کے بُت ٹوٹ جاتے ہیں۔ منبر و محراب، سیاست و روایات کے نام پر جو سکے ہماری مٹھی میں تھمائے جاتے ہیں وہ کھوٹے نکل آئیں تو انسان بھی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ مشتاق یوسفی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے
"کھلونا ٹوٹنے سے اچانک بچے نے روشنی کی طرف دیکھا تو آنسوؤں میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سسکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے کہ اس کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اس طرح جی جان سے روتا ہے۔
یہی حال ان کھلونوں کا ہوتا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ہے جب انسان ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ تراشیدم، پرستیدم، شکستم"۔
ایک بار ٹوٹ کر انسان نئی بنیادوں پر اپنی تعمیر اٹھاتا ہے۔ یہ پختہ تعمیر ہوتی ہے جس کی بنیاد میں ریشنل اپروچ کی اینٹ دھری ہوتی ہے۔ جب انسان کو اس بات کا ادراک ہو جائے کہ اسے من چاہی دنیا نہیں مل سکتی تو اس کے اندر آدھی اُتھل پتھل سیٹل ہو جاتی ہے باقی آدھے مسائل کے حل واسطے وہ بھی ریشنل اپروچ اپنا لیتا ہے۔ پھر معاملات زندگی کو دیکھے تو سمجھ آتی ہے اس کا غصہ، اس کی انرجی، اس کی فینٹیسی سب بیکار تھی۔ ایک ہی ابدی حقیقیت ہے کہ سماج تمہارے مطابق نہیں ڈھل سکتا جب تلک سماج کا ہر فرد تمہارے مطابق نہ سوچنے لگے اور یہاں سوچتا کون ہے۔ شخصی رومانس میں مبتلا ایک نجات دہندہ کی تلاش و آس لیے معجزہ رونما ہونے کی امید پر شارٹ کٹ کی تگ و دو ہی تو زندگی کا محور بنی ہوئی ہے۔ پھر ہنسی آتی ہے اور ہنسی لمبے قہقہے میں ڈھلتی ڈھلتی آنکھ بھگو جاتی ہے۔
پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے
میں چاہتا یہ تھا تیرے گھونگھٹ پہ بات ہو