Surkh Shiyat
سرخ شعیت

سرخ رنگ ملوکیت یا سامراج یا تانا شاہی کی ہر شکل کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہے جبکہ سیاہ رنگ سوگ اور ٹھہراؤ کی کیفیت ظاہر کرتا ہے۔ عباسی دور کے اختتامی زمانے تک جب اصولوں کی سربلندی کے لیے تن من دھن کی پرواہ نہ کرنے والا آئمہ کرام کا سلسلہ تھما تو آلِ بویہ اور پھر صفوی دور میں نظریہ مزاحمت کو رسومات و ادب آداب کے سانچے میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں ایک اور طرح کی دربار نشین مذہبی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آئی (اسٹیبلشمنٹ کا مطلب ہی سٹیٹس کو کی برقراری اور نظریاتی جمود کا دفاع ہے)۔ اس کی وجہ یہ ڈر رہا کہ کہیں عوام الناس میں کربلائی تحریک ملوکیت یا تاناشاہی کے خلاف کوئی نئی روح نہ پھونک دے لہٰذا ملوکیت کے خلاف تلوار اُٹھانے کے دینی پیغام کو بدل کر سوگ و آہ و بُکا کے سانچے میں ڈھال دیا جائے۔
یوں باطل کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد اور کسی صورت سمجھوتا نہ کرنے کی کربلائی تحریک کو رسومات کے جسم میں قید کرکے محض سوگ کا رنگ اوڑھا دیا گیا اور سرخ پرچم پیچھے ہوتا چلا گیا۔ ایک طبقہ فکرنے وہ تلوار جو طاغوت و جبروت کے سینے پر چلانا تھی وہ سیاہ رنگ اوڑھ کر اپنی ہی پیٹھ پر برسا لی اور دوسرے طبقہ فکرنے سفید رنگ اوڑھ کر حسینیت یا حسینی مشن کو ختم شریف، قُل خوانی اور قبرستان کے دورے تک محدود کر دیا۔
مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے مراد وہ تمام راہب، پنڈت، بھکشو، پادری و علماء ہیں جنہوں نے اہلِ حق کو راہ سے ہٹانے کے لیے حاکمِ وقت کو شریعت کے نام پر جواز یا فتوے مہیا کیے اور انسانوں کی مزاحمتی روح یا تحریک کو تھپک تھپک کے سلا دیا اور بدلے میں مراعات، شاہی خطابات، اقتدار میں حصہ داری، گدی نشینیاں اور فروغ دین کے نام پر نسل در نسل جاگیریں پائیں اور اس سب کا جواز دین سے جوڑ کر اسے جائز ثابت کرنے اور دکھانے کی کوشش کی۔
آپ دیکھیں کہ جتنے بھی بڑے مذاہب اور نظریات وجود میں آئے ان کا بنیادی ہدف باطل کے مقابلے میں حق و انصاف کا بول بالا تھا۔ مثلاً یہودیت حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوتی ہے جنہوں نے نمرود کی خدائی کو چیلنج کیا اور پھر حضرت موسیٰ فرعونیت کے آگے سینہ سپر ہو گئے۔ شریعتِ موسوی وجود میں آ گئی اور پھر رفتہ رفتہ شریعت موسوی کے بدن سے روح نکلتی چلی گئی اور رسومات کی شکل میں جسم باقی رہ گیا اور پھر جسم کو بھی یہودی راہبانیت چاٹ گئی۔
حضرت عیسیؑ کی جدوجہد یہودی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شروع ہوتی ہے۔ آپ سمیت آپ کے حواریوں اور پھر ان کے بعد آنے والے تابعین نے عدم تشدد کی بنیاد پر عیسوی نظریے یا بقائے امن کے پیغام کی سربلندی کے لیے کیا کیا مظالم نہ سہے اور کون سی قربانیاں نہیں دیں۔ خود عیسیٰ کو مصلوب ہونا پڑا۔ مگر پھر آنے والے سالوں میں ریاست اور مسیحی نظریے میں اتحاد ہوگیا اور جدوجہد کا پیغام ایک نئے سٹیٹس کو اور رسوماتی جال میں پھنس گیا اور پھر آنے والی صدیوں میں پاپائیت نے بھی وہی شکل و حربے اختیار کئے جو کسی بادشاہت کے ہوتے ہیں۔
اسلام بنیادی طور پر انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور ملوکیت کی ہرشکل کے خاتمے کے لیے آیا۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں اتحادِ بین المسلمین، ردِ عصبیت، عربی و عجمی پر تقویٰ کی فوقیت کے بارے میں جو جو نصیحتیں کیں وہ سب آپ کے پردہ فرمانے کے بعد چند عشروں میں ہی ایک کے بعد ایک ہدایت و نصیحت طاق پر رکھ دیے گئے اور پھر وہی ہوا جو کہ ہوتا ہے یعنی ہر شکل کی ملوکیت و مذہبی اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ یا پھر دین کو ڈھال بناتے ہوئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عوام الناس کو جہالت سے نجات دلانے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لیے ہتھیار بنانے کی کوشش۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرخ کا سیاہ میں بدلنا جتنا آسان ہے۔ سیاہ پر دوبارہ سرخ رنگ چڑھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ خود ہمارے گرم خون کے ساتھ بھی تو یہی ہوتا ہے۔ کچھ دیر سرخ رہتا ہے مگر گرنے کے بعد سیاہی مائل ٹھنڈا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر جم کر لوتھڑا بنا رہ جاتا ہے"۔ یہ نظریہ ڈاکٹر علی شریعتی کا تھیسس "سرخ شعیت" ہے جس کو وسعت اللہ خان نے قلمبند کیا تھا۔
جب آپ فلسفہ حسینیت یا مشنِ حسین کو سوگ و عزاداری کی رسومات، قل شریف، ختم قرآن، محفل مسالمہ، سوز و سلام کی چادر میں چھپا دیتے ہیں تو پھر کوئی حسینی پرچم تھامے میدانِ حق میں نہیں اُبھرتا۔ مسلمانوں کی کم و بیش ہزار سال کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔ کربلا میں امام حسین کے روضے پر آج بھی سرخ پھریرا لہراتا ہے۔ یعنی باطل کے مقابل حق کا بنیادی رنگ۔ میرا ماننا ہے کہ سیاہ و سفید کی بجائے مزاحمتی روح و قربانی کا اصل رنگ سرخ ہے جو ہم سے کھو گیا ہے۔ پروین شاکر کا ایک دعائیہ شعر ہے اس پر آمین کہتے ختم شد۔
پہروں کی تشنگی میں بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں روح مجھے کربلائی دے