Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Murray College

Murray College

مرے کالج

سکاٹش عیسائی مشنری مشن نے 1889 میں سیالکوٹ میں "سکاچ مشن کالج" کی بنیاد رکھی۔ کمپنی بہادر کے کیپٹن جان مرے نے اس کالج کی زمین کی خریداری کے لئے خطیر رقم مہیا کی تو بعد ازاں اس کا نام بدل کر "مرے کالج" رکھ دیا گیا۔

مرے کالج سیالکوٹ نے علامہ اقبال، فیض احمد فیض، اصغر سودائی، معروف مذہبی شخصیت فیض الحسن شاہ، جرنلسٹ وارث میر (حامد میر کے والد)، نیوکلیئر سائنسدان نور محمد، لیجنڈ کرکٹر ظہیر عباس اور سید مہدی بخاری (آپکا اپنا) پیدا کئے ہیں۔ علاوہ ازیں باجی عمیرہ احمد بھی یہیں سے نکلیں۔ مجھ سے دو سال سینیئر تھیں۔ ان دنوں کالج میں بزم ادب کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ باقاعدہ ایک بڑی تقریب منعقد ہوا کرتی جس میں سٹوڈنٹس شاعری، افسانے، مضامین وغیرہ وغیرہ پیش کرتے اور ہر کیٹیگری میں اول، دوم و سوم آنے والوں کو پرنسپل صاحب میڈل سے نوازا کرتے۔

کرنا خدا کا یوں ہوا کہ ایسے ہی شوق شوق میں میں نے ایک شارٹ سٹوری لکھ ماری۔ حیرت تو مجھے تب ہوئی جب وہ افسانہ مقابلے کے لئے نہ صرف قبول ہوگیا بلکہ دوسری پوزیشن لے گیا۔ تیسری پوزیشن پر عمیرہ احمد آئیں۔ اس دن باجی نے مجھے گھور کے دیکھا اور "ہوں" کرتی ہوئی مبارک دیتے نکل گئیں۔ (ویسے انہوں نے "ہوں" نہیں کیا تھا مگر مبارک ایسے دی تھی جیسے کہہ رہی ہو "جا مبارک ای تینوں ")

مجھے یاد ہے وہ افسانہ جو لکھا تھا وہ طارق عزیز مرحوم کی ایک پنجابی نظم سے متاثر ہو کر لکھ ڈالا تھا، مطلب اس کا مرکزی خیال طارق عزیز کی نظم بنی تھی۔ ایک لڑکا جو اس قدر معذور ہے کہ بستر سے اُٹھ نہیں سکتا وہ اپنے کمرے میں پڑا رہتا ہے۔ آندھی چلتی ہے تو اس کے کمرے کی کھڑکی کھُل جاتی ہے۔ وہ باہر کا منظر دیکھ کر منصوبے بنانے لگتا ہے کہ جب وہ تندرست ہوگا چلنے کے قابل ہوگا وہ فلاں جھیل کی جانب جائے گا۔ فلاں پہاڑ پر چڑھے گا۔ فلاں چشمے میں نہائے گا اور پھر منصوبہ بناتے ہوا بند ہو جاتی ہے۔ کھڑی آدھ کھلی رہ جاتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا افسانہ تھا۔ طارق عزیز کی وہ نظم تھی۔

میرے لڑکپن میں نیلام گھر نشر ہوتا تھا اور پھر جوانی میں اس کا نام طارق عزیز شو رکھ دیا گیا۔ میرے ہم عمر جو اب بیالس سال کے ہو رہے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ہماری نسل طارق عزیز کے شو کو دیکھتے اور اس سے جنرل نالج سیکھتے بڑی ہوئی۔ ایک شو میں انہوں نے یہ نظم پڑھی تھی۔ مجھے چونکہ بہت شوق ہوتا تھا روزانہ ڈائری لکھنے کا تو میں نے سن کر ڈائری میں لکھ لی تھی۔ ہماری جنریشن کے لوگ ڈائری لکھنے کا شوق بھی پالتے تھے۔

پچھلی راتی تیز ہوا

سارے شہر وچ پھردی رہی

زہر قہر دا کوئی وظیفہ

چاراں پاسے کردی رہی

میں تے بوہا بند ای رکھیا

اپنے پورے زور نال

پتہ نئیں کی بیتی ہووے

میرے جیہے کسی ہور نال

چار سال قبل مرے کالج کے رجسٹرار صاحب نے رابطہ کیا اور کہنے لگے کہ بخاری صاحب آپ کی ایک عدد تازہ تصویر ہائی ریزولوشن میں چاہیئے۔ کالج لائبریری کی تزئین و آرائش کرنے کے بعد ایک وال آف فیم بنائی جا رہی ہے جس میں مرے کالج سے فارغ التحصیل تمام ایسے افراد جنہوں نے اپنے اپنے شعبہ جات میں شہرت حاصل کی ان کی تصاویر مختصر تعارف کے ساتھ لگانی ہیں۔ ساتھ ہی فرمانے لگے کہ مرے کالج کا ایڈمیشن کارڈ اگر اب تک سنبھال رکھا ہو تو اس کی ایک کاپی تو ارسال فرمائیں، ہمارے ریکارڈ میں ہے مگر پیپر پر ہے اور پیپر پرانا ہو چکا ہے اس پر لکھا ہوا اتنا واضح نہیں رہا۔

اماں مرحومہ کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے ایسی عادت ڈالی۔ میں نے اک بار لکھا تھا

"مڈل کلاس گھروں میں ایک الماری ایسی ضرور ہوتی ہے جو ماں کے جہیز میں آئی ہوتی ہے۔ اس الماری کے ایک خانے میں دنیا جہاں کے پیپرز ماں محفوظ رکھتی تھی سوائے نیوز پیپر کے۔ جب شیشے صاف کرنے کی باری آتی تو ماں کہتی "جا ذرا ساتھ والوں سے پرانی اخبار تو لے کر آ"۔۔ اس الماری میں سے ایک دن میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ نکلی۔۔ میں نے ماں کو کہا کہ "امی یہ آخر کیوں سنبھال کر رکھی ہے اس کی اب کیا ضرورت؟" ماں کا جواب آیا "کیا پتا کونسا کاغذ کب کام آ جائے، تجھے کیا مسئلہ ہے؟"۔۔

اماں نے ایسے ایسے کاغذ سنبھال کے رکھے جس میں میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ سمیت وہ پرچیاں بھی شامل ہیں جن میں سن 1984 میں مجھے لگنے والے حفاظتی ٹیکوں کی تفصیلات موجود ہیں جب میں دو سال کا بچہ ہوتا تھا اور جب جب میں نے ان کاغذات کو تلف کرنے کی ہمت پکڑی تب تب مرحومہ ماں کا چہرہ دکھی لہجے کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا اور کانوں میں ماں کی آواز آنے لگتی "تجھے کیا پتا، پتا نہیں کونسا کاغذ کب کام آ جائے"۔۔

کیا پتا کونسا کاغذ کب کام آ جائے۔ اماں ٹھیک کہتی تھیں۔ ایڈمیشن کارڈ پرانے کاغذات میں سے مل گیا تھا اور موبائل کی فوٹو گیلری میں اس کی تصویر بھی مل گئی ہے۔ اب میرا دل کر رہا ہے کہ موجودہ دور کے حالات مطابق اپنے پچھلے سٹیٹس پر لگے گانے کو موڈیفائی کرکے اپنی ویڈیو بنا کر لگاؤں۔

گورنمنٹ مرے میرا کالج

جتھوں لبھیا مینوں نالج

Check Also

Nojawan Nasal Umeed Kab Aur Kaise Ganwa Baithi?

By Nusrat Javed