Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Main Theek Ja Raha Hoon?

Main Theek Ja Raha Hoon?

میں ٹھیک جا رہا ہوں؟

حیرت یہ ہوتی ہے میرے کالم یا مضامین جو دائیں بازو کی سوچ والے ہیں وہ بھی اٹھا لیتے ہیں اور جو بائیں بازو کے ہیں وہ بھی چھاپ دیتے ہیں۔ جس سیاسی جماعت یا اس کے فالور کو سوٹ کرتی ہے وہ بھی چھاپ دیتا ہے اور جس کو نہیں کرتی وہ اس دن والی چھاپتا ہے جس دن اس کے موافق اسے کچھ مل جائے۔ یہ سمجھ نہیں آتا کہ بھائی یہ دو انتہاؤں پر ہو کیا رہا ہے۔

پھر جب تجزیہ کیا تو یہ سمجھ آیا کہ اگر آپ کے "دشمن" بدل رہے ہیں تو آپ ٹھیک جا رہے ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر آپ کو میرا آج کا کالم بہت پسند آیا اور کل والے کالم پر آپ نے کہا کہ یار یہ ٹھیک نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے میں ٹھیک جا رہا ہوں۔ لیکن اگر آپ مستقل میری تعریف کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ یا مستقل اگر آپ میری مخالفت کریں گے تو اس کا مطلب ہوگا شاید کسی ایک سائیڈ پر ہوں تبھی ایسا ہو رہا ہے۔ لیکن اگر میں غیر جانبداری برقرار رکھتا ہوں یعنی اپنی خواہشات کو خبر بنانے کی بجائے اگر میں ایک طرف رکھ کر صرف سچائی کی تلاش پر فوکس کروں۔ مکمل سچائی تو نہیں ملے گی۔ لیکن کسی حد تک جو بھی ملے وہ کہنا ہی ٹھیک ہے۔ اس کا خمیازہ یہ تو ہوتا ہے کہ آپ کو ہر جانب سے اٹیک کا سامنا رہتا ہے۔

آج کل چونکہ اکثر کالم نگار اور مضمون نگار یا تو کھلم کھلا کسی کے ساتھ منسلک ہیں یا پھر پارٹی بن گئے ہیں یا اپنی خواہشات کو خبر یا تجزیئے میں مکس کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے میرا نقطہ نظر ذاتی کچھ بھی ہو۔ مگر اس کے لیے میں حقائق کو ادھر ادھر نہیں کروں گا۔ یعنی میرا جو ریڈر ہے اس کو میں حقائق کی بنیاد پر ایسا مٹیریل دوں جس کی بنیاد پر وہ کسی ایشو کے بارے ایک Informed Opinion بنا سکے۔ لیکن اگر میں اسے مزید کنفیوز کر رہا ہوں اور اس ابہام میں اس پر اپنی بات تھوپ کر اسے منوانے پر مجبور کرنے کی کوشش کروں تو یہ ایک خیانت ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ کسی ایشو پر اپنی رائے دے کر میں غلط نکل آؤں یا میری رائے وقت کے ساتھ یا کسی نئی مستند خبر کی روشنی میں غلط نکل آئے لیکن دل میں یہ خلش یا ملال نہیں ہونا چاہئیے کہ میں نے جان بوجھ کر اس مسئلہ پر رائے عامہ ہموار کرنے کو تب غلط رائے دی تھی۔ یہ سکون ہونا چاہئیے کہ تب جو رائے دی وہ صدق دل سے تجزیہ کرکے دی اور خواہش کو خبر بنائے بنا دی۔ چونکہ عقل کل نہیں ہوں اس لیے غلط نکل آیا مگر کسی پارٹی یا جماعت کے ایجنڈے کو tow کرنے کی مشق میں، کسی کی فیڈنگ پر، کسی کے رومانس میں یا کسی کے کہنے پر نہیں دی۔

میرا ماننا ہے کہ فرد کو پولیٹیکلی ایکٹو ہونا چاہئیے۔ پولیٹیکلی کوریکٹ وہ خود وقت کے ساتھ ہو جائے گا۔ ہاں لیکن تب جب عمر و تجربہ انسانوں کو کچھ سکھا دے۔ ٹین ایجرز اور تعلیمی اخراجات والدین سے لینے والے جنہوں نے پریکٹیکل لائف میں قدم رکھا نہ کچھ حوادث سے دوچار ہوئے ان کی رائے زیادہ تر سنی سنائی، رومانس میں مبتلا ہوئی اور پراپیگنڈا کا شکار ہوئی ملتی ہے۔ اس پر یہ افراد اپنے دماغ سے تجزیہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے کیونکہ ابھی دماغی بلوغت آئی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایموشنل فول ہوتے ہیں، سیاسی بیانئیے کی کاپی پیسٹ مشین ہوتے ہیں۔ اسی سبب اوئے توئے، توں تڑاں اور تیری ایسی کی تیسی جیسا رویہ دیکھنے میں آتا ہے جس کا شکار اس سماج میں ہر لکھنے بولنے والا بنتا ہے۔

پختہ عمر کے افراد کا یوں ہوتا ہے کہ اگر وہ ایک خاص بیانئیے کے عرصہ دراز سے یا نسل در نسل حامی رہے ہیں تو وہ رہیں گے۔ وہ جذباتی بھی ہوں گے اور پھر پختہ عمر میں کوئی کسی سبب شخصی رومانس میں مبتلا ہوگیا ہے تو بھیا اس عمر میں رومانس کا بھوت آسانی سے نہیں نکلتا۔ اگر آپ واقعی سچ کی تلاش میں جاتے ہیں تو آپ کو اپنی آستین کے بت توڑنے پڑتے ہیں اور یہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اس واسطے اکثر لوگوں کو یہ سرو کار نہیں ہوتا کہ سچ کیا ہے۔ سچ وہی ہوتا ہے جو ان کے خیالات کے سانچے میں فٹ بیٹھ جائے۔

Check Also

Field Marshal Ko Americi Sadar Se Mulaqat Nahi Karni Chahiye Thi?

By Najam Wali Khan