Lahore, Barish Aur Yaadein
لاہور، بارش اور یادیں

لاہور بارش میں بھیگ کر بہت پیارا ہو جاتا ہے۔ موسم رم جھم کا ہو تو آفس جانے کا من نہیں ہوتا۔ مگر جانا تو پڑتا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ جو اپنی مرضی کا مالک ہے۔
زندگی کی طرح بارش کے بھی بے شمار روپ ہیں۔ بارش کی مختلف آوازوں نے مجھے زندگی بھر اپنا اسیر رکھا ہے۔ میں نے ان آوازوں کو اپنے سفروں کے دوران پہاڑوں، میدانوں، ریگستانوں، جنگلوں، برف زاروں، شہروں، ویرانوں، ہنگاموں اور تنہائی میں بہت دفعہ سنا ہے۔ کبھی کبھی یہ آوازیں اور ان کے سُر جب اندر کے موسم سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو زندگی کچھ ایسے اسراروں سے پردہ اٹھاتی ہے جنہیں صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیفیات کے اظہار میں بعض اوقات الفاظ گونگے کے اشاروں سے بھی زیادہ مبہم ہو جاتے ہیں۔
بارش کا ماضی کے یادوں سے کیا تعلق ہے؟ بارش کا رومانیت سے کیا تعلق ہے؟ بارش کی آواز کھڑکیوں کے شیشوں، درختوں کے پتوں، چھت کی منڈیروں سے ہوتی ہوئی کس طرح خیالوں، سوچوں میں جل ترنگ بجاتی ہے؟ اور کیسے بارش میں بھیگ کر مٹی کی خوشبو مساموں میں اُترتی چلی جاتی ہے؟ میرے پاس اس کی وضاحت کے لئے کوئی عقلی یا سائنسی دلیل تو نہیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ بارش کی آواز میرے لئے فطرت کا حسین تحفہ ہے۔ بارش دلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا حدف یادوں کی لائیبریری ہوتا ہے۔ بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ گزارا ہوا خوبصورت وقت، بہت اچھی اچھی باتیں اور شناسا چہرے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہ جانے کون کون سے دکھ بھی خود رو پودوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلا دیتے ہیں۔
پہاڑوں میں کھوئی ہوئی محبتیں اور بھولی ہوئی یادیں پھر لوٹ آتی ہیں، جس طرح بارش کے دنوں میں باہر بوندیں پڑتی ہیں تو انسان کے اندر بھی بارش ہونے لگتی ہے، اوپر سے تو ٹھیک رہتا ہے لیکن اندر سے بھیگ جاتا ہے، اس قدر شرابور کہ آرام سے بیٹھنے کی کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔ یہی کیفیت پہاڑوں میں جا کر ہوتی ہے، اُداسی کی کیفیت چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے، اندر آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا ہے اور باہر پھر چاہے دھوپ ہی کیوں نہ کھِل جائے، کیسی ہی ٹھنڈی ہوائیں کیوں نہ چل رہی ہوں، اندر ٹپا ٹپ بوندیں گرنے لگتیں ہیں اور شدید بارش شروع ہو جاتی ہے۔
جب بارش برستی ہے مجھے کئی بیتے دن یاد آنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی اک بار ہنزہ میں سڑکوں پر بھیگتے ہوئے دن گزر رہے تھے۔ کریم آباد سے اُتر کر بارش میں بھیگتا میں علی آباد کے بازار میں آ گیا تھا۔ ناٹکو کے اڈے کے سامنے واقع ایک چھوٹے سےچائے کے ہوٹل میں جا کر بیٹھ گیا۔ باہر بارش برستی جا رہی تھی اور ہوٹل کے شیشے سے دھندلی سی راکاپوشی کی چوٹی نظر آ رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے میں پتہ نہیں کتنے چائے کے کپ پی گیا تھا۔
مقامی لوگ چائے پینے بیٹھے تھے۔ پہاڑوں میں لوک داستانیں بڑی مشہور ہوتی ہیں اور لوگ بھی عقیدت سے ان پر یقین رکھتے اور سناتے ہیں۔ ایک بھیگے ہوئے بابا جی میرے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ بارش پر بات شروع ہوئی تو بولے: پہاڑی لوگوں کا خیال ہے کہ اونچے پہاڑوں پر درختوں میں کُرلا کُرلی (ایک پرندے کا نام) انہیں برساتوں میں انڈے دیتے ہیں۔ کُرلا کُرلی کو کسی انسان نے نہیں دیکھا، کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ان کے پر سفید اور چونچ لال ہوتی ہے (مجھے یہ پرندے بھی عنقا کی طرح افسانوی معلوم ہوتے ہیں)۔ انہوں نے داستان جاری رکھی۔ جب انڈے دے دئے جاتے ہیں تو کُرلی کا جسم اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ مسلسل سات دن کی بارش میں نہا کر نارمل ہوتا ہے۔ پہلے سات دن کُرلی انڈوں پر بیٹھتی ہے اور کُرلا بارش میں بھیگتے ہوئے دانہ تلاش کرتا ہے، پھر جھڑی ٹوٹ جاتی ہے اور جب کُرلی گھونسلے سے باہر نکلتی ہے بارش پھر سے ہونے لگتی ہے۔